آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا

آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا
by محمد ابراہیم ذوق

آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا
ہے حسرت پابوس نکل جائے تو اچھا

جو چشم کہ بے نم ہو وہ ہو کور تو بہتر
جو دل کہ ہو بے داغ وہ جل جائے تو اچھا

بیمار محبت نے لیا تیرے سنبھالا
لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا

ہو تجھ سے عیادت جو نہ بیمار کی اپنے
لینے کو خبر اس کی اجل جائے تو اچھا

کھینچے دل انساں کو نہ وہ زلف سیہ فام
اژدر کوئی گر اس کو نگل جائے تو اچھا

تاثیر محبت عجب اک حب کا عمل ہے
لیکن یہ عمل یار پہ چل جائے تو اچھا

دل گر کے نظر سے تری اٹھنے کا نہیں پھر
یہ گرنے سے پہلے ہی سنبھل جائے تو اچھا

فرقت میں تری تار نفس سینے میں میرے
کانٹا سا کھٹکتا ہے نکل جائے تو اچھا

اے گریہ نہ رکھ میرے تن خشک کو غرقاب
لکڑی کی طرح پانی میں گل جائے تو اچھا

ہاں کچھ تو ہو حاصل ثمر نخل محبت
یہ سینہ پھپھولوں سے جو پھل جائے تو اچھا

وہ صبح کو آئے تو کروں باتوں میں دوپہر
اور چاہوں کہ دن تھوڑا سا ڈھل جائے تو اچھا

ڈھل جائے جو دن بھی تو اسی طرح کروں شام
اور چاہوں کہ گر آج سے کل جائے تو اچھا

جب کل ہو تو پھر وہ ہی کہوں کل کی طرح سے
گر آج کا دن بھی یوں ہی ٹل جائے تو اچھا

القصہ نہیں چاہتا میں جائے وہ یاں سے
دل اس کا یہیں گرچہ بہل جائے تو اچھا

ہے قطع رہ عشق میں اے ذوقؔ ادب شرط
جوں شمع تو اب سر ہی کے بل جائے تو اچھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse