Author:محمد ابراہیم ذوق
محمد ابراہیم ذوق (1790 - 1854) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
- یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے
- وہ کون ہے جو مجھ پہ تأسف نہیں کرتا
- وقت پیری شباب کی باتیں
- اس سنگ آستاں پہ جبین نیاز ہے
- تیرے آفت زدہ جن دشتوں میں اڑ جاتے ہیں
- سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے
- رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
- قفل صد خانۂ دل آیا جو تو ٹوٹ گئے
- قصد جب تیری زیارت کا کبھو کرتے ہیں
- نیمچہ یار نے جس وقت بغل میں مارا
- نگہ کا وار تھا دل پر پھڑکنے جان لگی
- نالہ اس شور سے کیوں میرا دہائی دیتا
- نہیں ثبات بلندی عز و شاں کے لیے
- نہ کھینچو عاشق تشنہ جگر کے تیر پہلو سے
- نہ کرتا ضبط میں نالہ تو پھر ایسا دھواں ہوتا
- مرے سینے سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا
- مزہ تھا ہم کو جو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے
- مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے
- مار کر تیر جو وہ دلبر جانی مانگے
- محفل میں شور قلقل مینائے مل ہوا
- لیتے ہی دل جو عاشق دل سوز کا چلے
- لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
- کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے
- کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
- کوئی کمر کو تری کچھ جو ہو کمر تو کہے
- کوئی ان تنگ دہانوں سے محبت نہ کرے
- کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا
- خوب روکا شکایتوں سے مجھے
- خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
- کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے
- کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر
- کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دے
- کب حق پرست زاہد جنت پرست ہے
- جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا
- جو کچھ کہ ہے دنیا میں وہ انساں کے لیے ہے
- جب چلا وہ مجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر
- ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے
- ہوئے کیوں اس پہ عاشق ہم ابھی سے
- ہاتھ سینہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو
- ہنگامہ گرم ہستئ نا پائیدار کا
- ہیں دہن غنچوں کے وا کیا جانے کیا کہنے کو ہیں
- گہر کو جوہری صراف زر کو دیکھتے ہیں
- گئیں یاروں سے وہ اگلی ملاقاتوں کی سب رسمیں
- اک صدمہ درد دل سے مری جان پر تو ہے
- دود دل سے ہے یہ تاریکی مرے غم خانہ میں
- دل بچے کیونکر بتوں کی چشم شوخ و شنگ سے
- دکھلا نہ خال ناف تو اے گل بدن مجھے
- دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا
- چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
- چشم قاتل ہمیں کیونکر نہ بھلا یاد رہے
- بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی
- برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی
- بلائیں آنکھوں سے ان کی مدام لیتے ہیں
- باغ عالم میں جہاں نخل حنا لگتا ہے
- بادام دو جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
- عزیزو اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو
- اے ذوقؔ وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ
- اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
- آتے ہی تو نے گھر کے پھر جانے کی سنائی
- آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا
- آنکھ اس پرجفا سے لڑتی ہے
قطعہ
edit- تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوقؔ
- نذر دیں نفس کش کو دنیا دار
- جن کو اس وقت میں اسلام کا دعویٰ ہے کمال
- دنیا سے ذوقؔ رشتۂ الفت کو توڑ دے
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |