آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ
آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ
اشک پھرتے ہیں ان میں جیسے رہٹ
میں نہ سمجھا تھا خوب تیرے تئیں
ہے تو مطرب پسر بڑا نٹ کھٹ
پی گئے ہم صراحیٔ مے کو
دست ساقی سے لیتے ہی غٹ غٹ
تیرا تیر نگہ ہے وہ کافر
منہ سے اک دم جدا تو کر گھونگٹ
سمجھے تھے مار آپ دیکھی تھی
آئینے میں کسی کی زلف کی لٹ
جس کو کہتے ہیں عرصۂ ہستی
توسن عمر کی ہے اک سرپٹ
مصحفیؔ اس کے رخ پہ خط آیا
گئے وے دن گئی وہ رت ہی پلٹ
جم کے بیٹھے نہ تھا جہاں کوئی
رات دن اب رہے ہے واں جمگھٹ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |