آنکھ جب ساقی پہ ڈالی جائے گی
آنکھ جب ساقی پہ ڈالی جائے گی
پھر طبیعت کیا سنبھالی جائے گی
چٹکیاں لینے کی وہ کرتے ہیں مشق
شوخیوں میں جان ڈالی جائے گی
کیوں پریشاں کر رہی ہے باغ میں
بوئے گل تجھ سے صبا لی جائے گی
ہم ادھر ہیں سامنے ہے آئنہ
آنکھ کس کس پر نکالی جائے گی
پھول کیسے مر مٹوں کی قبر پر
خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی
دیکھنے ہی کو ہے بس ساقی کی آنکھ
مے نہ اس ساغر میں ڈالی جائے گی
دم نکل جائے گا حسرت سے مرا
تیغ قاتل کی جو خالی جائے گی
دل اگر ٹوٹا تو پھر بیکار ہے
زلف بگڑے گی بنا لی جائے گی
کیوں گلے ملتی نہیں وہ تیغ ناز
عید کیا اب کی بھی خالی جائے گی
کوئی کہتا ہے کہ صفدرؔ یہ غزل
نور کے سانچے میں ڈھالی جائے گی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |