آنکھ دکھلانے لگا ہے وہ فسوں ساز مجھے
آنکھ دکھلانے لگا ہے وہ فسوں ساز مجھے
کہیں اب خاک نہ چھنوائے یہ انداز مجھے
کیسے حیراں تھے تم آئینے میں جب آنکھ لڑی
آج تک یاد ہے اس عشق کا آغاز مجھے
سامنے آ نہیں سکتے کہ حجاب آتا ہے
پردۂ دل سے سناتے ہیں وہ آواز مجھے
تیلیاں توڑ کے نکلے سب اسیران قفس
مگر اب تک نہ ملی رخصت پرواز مجھے
پر کتر دے ارے صیاد چھری پھیرنا کیا
مار ڈالے گی یوں ہی حسرت پرواز مجھے
زیر دیوار صنم قبر میں سوتا ہوں فلک
کیوں نہ ہو طالع بیدار پر اب ناز مجھے
بے دھڑک آئے نہ زنداں میں نسیم وحشت
مست کر دیتی ہے زنجیر کی آواز مجھے
پردۂ ہجر وہی ہستئ موہوم تھی یاسؔ
سچ ہے پہلے نہیں معلوم تھا یہ راز مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |