Author:یاس یگانہ چنگیزی
یاس یگانہ چنگیزی (1884 - 1956) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- مجھے دل کی خطا پر یاسؔ شرمانا نہیں آتا
- کیوں کسی سے وفا کرے کوئی
- زمانہ خدا کو خدا جانتا ہے
- خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
- ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
- سلسلہ چھڑ گیا جب یاسؔ کے افسانے کا
- بیٹھا ہوں پاؤں توڑ کے تدبیر دیکھنا
- چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا
- دل لگانے کی جگہ عالم ایجاد نہیں
- موت آئی آنے دیجیے پروا نہ کیجیے
- سلامت رہیں دل میں گھر کرنے والے
- سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا
- قیامت ہے شب وعدہ کا اتنا مختصر ہونا
- جب حسن بے مثال پر اتنا غرور تھا
- چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا
- زمانے پر نہ سہی دل پہ اختیار رہے
- اگر اپنی چشم نم پر مجھے اختیار ہوتا
- حسن پر فرعون کی پھبتی کہی
- فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
- آپ میں کیونکر رہے کوئی یہ ساماں دیکھ کر
- کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
- مزہ گناہ کا جب تھا کہ با وضو کرتے
- دل عجب جلوۂ امید دکھاتا ہے مجھے
- قفس کو جانتے ہیں یاسؔ آشیاں اپنا
- کیسی کیسی بستیاں دو دن میں ویراں ہو گئیں
- یار کی تصویر ہی دکھلا دے اے مانی مجھے
- آنکھ دکھلانے لگا ہے وہ فسوں ساز مجھے
- محروم شہادت کی ہے کچھ تجھ کو خبر بھی
- خزاں کے جور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
- آہ بیمار کارگر نہ ہوئی
- اپنی ہستی خود ہم آغوش فنا ہو جائے گی
- لپٹتی ہے بہت یاد وطن جب دامن دل سے
- کام دیوانوں کو شہروں سے نہ بازاروں سے
- خداؤں کی خدائی ہو چکی بس
- رہے دنیا میں محکوم دل بے مدعا ہو کر
- دنیا کا چلن ترک کیا بھی نہیں جاتا
- کس دل سے ترک لذت دنیا کرے کوئی
- قفس نصیبوں کو تڑپا گئی ہوائے بہار
- خدا معلوم کیسا سحر تھا اس بت کی چتون میں
- غضب کی دھوم شبستان روزگار میں ہے
- قصہ کتاب عمر کا کیا مختصر ہوا
- برگشتہ اور وہ بت بے پیر ہو نہ جائے
- روشن تمام کعبہ و بت خانہ ہو گیا
- گر یاد میں ساقی کی ساغر نظر آ جائے
- واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا
- یکساں کبھی کسی کی نہ گزری زمانے میں
- درد دل روئیں کس امید پہ بیگانے سے
- کس کی آواز کان میں آئی
- آپ سے آپ عیاں شاہد معنی ہوگا
- دیتی ہے وحشت دل پھر مجھے تعبیر بہار
- پچھلے کو اٹھ کھڑا نہ ہو درد جگر کہیں
- دل بے تاب کو کب وصل کا یارا ہوتا
- وحشت تھی ہم تھے سایۂ دیوار یار تھا
- سایہ اگر نصیب ہو دیوار یار کا
- جو دل نہیں رکھتا کوئی مشکل نہیں رکھتا
- دامن قاتل جو اڑ اڑ کر ہوا دینے لگے
- ہنوز درد جدائیٔ یار باقی ہے
- دیتی ہے وحشت دل فصل بہاراں کی خبر
- کچھ زرد زرد پتے نشاں جو خزاں کے ہیں
- چلتا نہیں فریب کسی عذر خواہ کا
- ٹھوکریں کھلوائیں کیا کیا پائے بے زنجیر نے
- یار ہے آئنہ ہے شانہ ہے
- خدا کی مار وہ ایام شور و شر گزرے
- شکوۂ درد جگر اے مہرباں کیوں کر کریں
- اداسی چھا گئی چہرے پہ شمع محفل کے
- جب تک خلش درد خدا داد رہے گی
- پالا امید و بیم سے ناگاہ پڑ گیا
رباعی
edit- زنجیر سے ہونے کا نہیں دل بھاری
- یوسف کو اس انجمن میں کیا ڈھونڈھتا ہے
- واللہ یہ زندگی بھی ہے قابل دید
- واعظ کو مناسب نہیں رندوں سے تنے
- صبح ازل و شام ابد کچھ بھی نہیں
- رونا ہے بدا جنہیں وہ جم جم روئیں
- پروانے کہاں مرتے بچھڑتے پہنچے
- مشکل کوئی مشکل نہیں جینے کے سوا
- ممکن نہیں اندیشۂ فردا کم ہو
- مفلس کو مزہ زیست کا چکھنے نہ دیا
- موجوں سے لپٹ کے پار اترنے والے
- منزل کا پتا ہے نہ ٹھکانہ معلوم
- کیوں مطلب ہستی و عدم کھل جاتا
- کوئی تجھ کو پکارتا جاتا ہے
- امکان طلب سے کوئی آگاہ تو ہو
- ہاں اے دل ایذا طلب آرام نہ لے
- حیران ہے کیوں راز بقا مجھ سے پوچھ
- دنیا طلبی جائے گی کیا جان کے ساتھ
- دنیا سے الگ جا کے کہیں سر پھوڑو
- دنیا میں رہ کے راست بازی کب تک
- دیوانۂ عشق کو نصیحت توبہ
- دل کو حد سے سوا دھڑکنے نہ دیا
- دیکھوں کب تک گلوں کی یہ تشنہ لبی
- دیکھے ہیں بہت چمن اجڑتے بستے
- درد اپنا کچھ اور ہے دوا ہے کچھ اور
- چھٹ بھیوں کی شاعری کا یہ زور یہ شور
- چارہ نہیں کوئی جلتے رہنے کے سوا
- بے درد ہو کیا جانو مصیبت کے مزے
- بادل کو لگی کھلتے برستے کچھ دیر
- ارمان نکلنے کا مزہ ہے کچھ اور
- اپنی حد سے گزر گئے اب کیا ہے
- ایسا نہ ہو حق کا سامنا ہو جائے
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |