آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے
آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے
یہ میسر ہو تو پھر کیوں کوئی ناشاد رہے
اس زمانے میں خموشی سے نکلتا نہیں کام
نالہ پر شور ہو اور زوروں پہ فریاد رہے
درد کا کچھ تو ہو احساس دل انساں میں
سخت ناشاد ہے دائم جو یہاں شاد رہے
اے ترے دام محبت کے دل و جاں صدقے
شکر ہے قید علائق سے ہم آزاد رہے
نالہ ایسا ہو کہ ہو اس پہ گمان نغمہ
رہے اس طرح اگر شکوۂ بیداد رہے
ہر طرف دام بچھائے ہیں ہوس نے کیا کیا
کیا یہ ممکن ہے یہاں کوئی دل آزاد رہے
جب یہ عالم ہو کہ منڈلاتی ہو ہر سمت کو برق
کیوں کوئی نوحہ گر خرمن برباد رہے
اب تصور میں کہاں شکل تمنا وحشتؔ
جس کو مدت سے نہ دیکھا ہو وہ کیا یاد رہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |