Author:وحشت کلکتوی
وحشت کلکتوی (1881 - 1956) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- لوٹا ہے مجھے اس کی ہر ادا نے
- جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو
- جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی
- زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا
- اور عشرت کی تمنا کیا کریں
- ہوئے ہیں گم جس کی جستجو میں اسی کی ہم جستجو کریں گے
- دل کے کہنے پہ چلوں عقل کا کہنا نہ کروں
- شوق پھر کوچۂ جاناں کا ستاتا ہے مجھے
- شوق نے عشرت کا ساماں کر دیا
- کسی صورت سے اس محفل میں جا کر
- سرور افزا ہوئی آخر شراب آہستہ آہستہ
- وفائے دوستاں کیسی جفائے دشمناں کیسی
- چلا جاتا ہے کاروان نفس
- آپ اپنا روئے زیبا دیکھیے
- آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے
- نالوں سے اگر میں نے کبھی کام لیا ہے
- تیر نظر نے ظلم کو احساں بنا دیا
- ضبط کی کوشش ہے جان ناتواں مشکل میں ہے
- ترے آشفتہ سے کیا حال بیتابی بیاں ہوگا
- نہیں کہ عشق نہیں ہے گل و سمن سے مجھے
- وحشتؔ مبتلا خدا کے لیے
- نہیں ممکن لب عاشق سے حرف مدعا نکلے
- کیا ہے کہ آج چلتے ہو کترا کے راہ سے
- آہ شب نالۂ سحر لے کر
- شوق دیتا ہے مجھے پیغام عشق
- اے اہل وفا خاک بنے کام تمہارا
- کس نام مبارک نے مزہ منہ کو دیا ہے
- کسی طرح دن تو کٹ رہے ہیں فریب امید کھا رہا ہوں
- تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں
- درد آ کے بڑھا دو دل کا تم یہ کام تمہیں کیا مشکل ہے
- سنگ طفلاں فدائے سر نہ ہوا
- میں نے مانا کام ہے نالہ دل ناشاد کا
- پوشیدہ دیکھتی ہے کسی کی نظر مجھے
- مروت کا پاس اور وفا کا لحاظ
- لطف نہاں سے جب جب وہ مسکرا دئیے ہیں
- یہی ہے عشق کی مشکل تو مشکل آساں ہے
- پیمان وفائے یار ہیں ہم
- لگاؤ نہ جب دل تو پھر کیوں لگاوٹ
- شرمندہ کیا جوہر بالغ نظری نے
- کہتے ہو اب مرے مظلوم پہ بیداد نہ ہو
- جو تجھ سے شور تبسم ذرا کمی ہوگی
- دیکھنا وہ گریۂ حسرت مآل آ ہی گیا
- یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا
- درد کا میرے یقیں آپ کریں یا نہ کریں
- تو ہے اور عیش ہے اور انجمن آرائی ہے
- آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو
- بہار آئی ہے آرائش چمن کے لیے
- آئینۂ خیال تھا عکس پذیر راز کا
- لبریز حقیقت گو افسانۂ موسیٰ ہے
رباعی
edit- مجھ سے جو نہ ملتے وہ کوئی رات نہ تھی
- کیوں غمزۂ جاں ستاں کو خنجر نہ کہیں
- بے سمجھے نہ جام غم پیا تھا میں نے
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |