آوارہ
by مجاز لکھنوی
304557آوارہمجاز لکھنوی

شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارا پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارا پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
میرے سینے پر مگر رکھی ہوئی شمشیر سی
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

یہ روپہلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صوفی کا تصور جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجڑی
جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی
ہوک سی سینے میں اٹھی چوٹ سی دل پر پڑی
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے خانے میں چل
پھر کسی شہناز لالہ رخ کے کاشانے میں چل
یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

ہر طرف بکھری ہوئی رنگینیاں رعنائیاں
ہر قدم پر عشرتیں لیتی ہوئی انگڑائیاں
بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں مری فطرت نہیں
اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

منتظر ہے ایک طوفان بلا میرے لیے
اب بھی جانے کتنے دروازے ہیں وا میرے لیے
پر مصیبت ہے مرا عہد وفا میرے لیے
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

جی میں آتا ہے کہ اب عہد وفا بھی توڑ دوں
ان کو پا سکتا ہوں میں یہ آسرا بھی توڑ دوں
ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑ دوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب
جیسے ملا کا عمامہ جیسے بنیے کی کتاب
جیسے مفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

دل میں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کیا کروں
میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کیا کروں
زخم سینے کا مہک اٹھا ہے آخر کیا کروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

مفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے
سیکڑوں سلطان جابر ہیں نظر کے سامنے
سیکڑوں چنگیز و نادر ہیں نظر کے سامنے
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں
تاج پر اس کے دمکتا ہے جو پتھر توڑ دوں
کوئی توڑے یا نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

بڑھ کے اس اندر سبھا کا ساز و ساماں پھونک دوں
اس کا گلشن پھونک دوں اس کا شبستاں پھونک دوں
تخت سلطاں کیا میں سارا قصر سلطاں پھونک دوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.