آپ کیوں بیٹھے ہیں غصے میں مری جان بھرے

آپ کیوں بیٹھے ہیں غصے میں مری جان بھرے
by مضطر خیرآبادی

آپ کیوں بیٹھے ہیں غصے میں مری جان بھرے
یہ تو فرمائیے کیا زلف نے کچھ کان بھرے

جان سے جائے اگر آپ کو چاہے کوئی
دم نکل جائے جو دم آپ کا انسان بھرے

لیے پھرتے ہیں ہم اپنے جگر و دل دونوں
ایک میں درد بھرے ایک میں ارمان بھرے

دامن دشت نے آنسو بھی نہ پوچھے افسوس
میں نے رو رو کے لہو سیکڑوں میدان بھرے

تیغ قاتل کو گلے سے جو لگایا مضطرؔ
کھنچ کے بولی کہ بڑے آئے تم ارمان بھرے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse