آپ کے محرم اسرار تھے اغیار کہ ہم

آپ کے محرم اسرار تھے اغیار کہ ہم
by قلق میرٹھی

آپ کے محرم اسرار تھے اغیار کہ ہم
دل غم ناک کے تم رہتے تھے غم خوار کہ ہم

شکوہ آلود نصیحت نہیں اچھی ناصح
آپ ہیں کشتۂ بیداد ستم گار کہ ہم

حشر اگر کہوے مددگار ہمارا ہے کون
بول اٹھے صاف ترا فتنۂ رفتار کہ ہم

آپ کی شان کا سامان کہاں سے آیا
یوسف حسن کے تھے آپ خریدار کہ ہم

ہم برا غیر سے ملنے کو سمجھتے تھے کہ تم
اپنے مطلب کے ہیں اغیار طلب گار کہ ہم

ہائے بے رحمیٔ دلدار سے بے قدری جان
زیست سے آپ ہماری ہوئے بیزار کہ ہم

جانتے ہم ہیں برا ربط جتانے کو کہ غیر
ہوں گے مشہور ہوس ناک ترے یار کہ ہم

قتل کیا ہو کوئی خنجر میں نہیں طرز نگاہ
داد اے عشق ہے جلاد گنہ گار کہ ہم

نہ محبت کی خبر اس کو نہ ہم کو اس کی
سادگی کہہ تو سہی یار ہے عیار کہ ہم

روز و شب میرے پھرانے کو پھرے جاتا ہے
چرخ ہے گردش بے کار سے ناچار کہ ہم

ہو کے پامال ٹھکانے سے لگی خاک اپنی
تو ہے آشفتہ سر کوچہ و بازار کہ ہم

ان کو تم چاہتے ہو آپ کو ہم چاہتے ہیں
لائق رحم ہیں فرمائیے اغیار کہ ہم

اے قلقؔ پاؤں زمیں پر نہیں رکھتا مغرور
چرخ ہے خاک در حیدر کرار کہ ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse