Author:قلق میرٹھی
قلق میرٹھی (1833 - 1880) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آ ہی جاتی ہے
- نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے
- آئے کیا تیرا تصور دھیان میں
- دوستی اس کی دشمنی ہی سہی
- خط زمیں پر نہ اے فسوں گر کاٹ
- ماتم دید ہے دیدار کا خواہاں ہونا
- ہے خموشیٔ انتظار بلا
- ہر عداوت کی ابتدا ہے عشق
- ہم تو یاں مرتے ہیں واں اس کو خبر کچھ بھی نہیں
- پی بھی اے مایۂ شباب شراب
- راز دل دوست کو سنا بیٹھے
- کیا کہیں تجھ سے ہم وفا کیا ہے
- تیرے در پر مقام رکھتے ہیں
- دیدۂ صرف انتظار ہے شمع
- تجھے کل ہی سے نہیں بے کلی نہ کچھ آج ہی سے رہا قلق
- دل کے ہر جزو میں جدائی ہے
- کیا آ کے جہاں میں کر گئے ہم
- رشتۂ رسم محبت مت توڑ
- چل دیے ہم اے غم عالم وداع
- کس قدر دل ربا نما ہے دل
- زندگی مرگ کی مہلت ہی سہی
- جو دل بر کی محبت دل سے بدلے
- تیرے وعدے کا اختتام نہیں
- غیر شایان رسم و راہ نہیں
- نہ پہنچے ہاتھ جس کا ضعف سے تا زیست دامن تک
- آپ کے محرم اسرار تھے اغیار کہ ہم
- وہی وعدہ ہے وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے
- دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی
- ان سے کہا کہ صدق محبت مگر دروغ
- خوشی میں بھی نواسنج فغاں ہوں
- کہیے کیا اور فیصلے کی بات
- تھک تھک گئے ہیں عاشق درماندۂ فغاں ہو
- اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم
- نہ رہا شکوۂ جفا نہ رہا
- اے ستم آزما جفا کب تک
- اڑاؤں نہ کیوں تار تار گریباں
- خود دیکھ خودی کو او خود آرا
- اٹھنے میں درد متصل ہوں میں
- ہو جدا اے چارہ گر ہے مجھ کو آزار فراق
- بیگانہ ادائی ہے ستم جور و ستم میں
- نقش بر آب نام ہے سیل فنا مقام
رباعی
edit- زہاد کا غفلت سے ہے اوراد و سجود
- ژولیدہ معما ہے جہان پر پیچ
- یہ وہم دوئی دل سے جدا کرنا تھا
- یہ شہر بلند عالم بالا سے تھا
- یارب تجھے فکر پائے بندی کیا ہے
- یاں نفس کی شوخی سے ہے مجنوں لیلیٰ
- یاں ہم کو دیا کیا جو وہاں پر ہو نگاہ
- وہ وقت شباب وہ زمانہ نہ رہا
- اس خطے کی جا عالم بالا میں نہیں
- تھا آدم خاکی غضب بے زنہار
- تا ماہ صیام ہوئے باب امید
- شہہ کہتے تھے افسوس نہ کہنا مانے
- صد حیف کہ مے نوش ہوئے ہم کیسے
- ناصح کی شکایت وہی زخم جاں ہے
- ناحق تھا قلقؔ مجھے غرور اسلام
- منہ گیسوئے پر خم سے نہ موڑوں کب تک
- محراب و مصلیٰ اور زاہد بھی وہی
- مسجد میں نہ جا واں نہیں ہونے کا نباہ
- مسجد کو دیا چھوڑ ریا کی خاطر
- مرمر کے پئے رنج و بلا جیتے ہیں
- لو جائیے بس خدا ہمارا حافظ
- لازم ہے کہ فکر رخ دلبر چھوڑوں
- کیا ذکر وفا جفا کسی سے نہ بنی
- کیا لینے سوئے جاہ و حشم جائیں گے
- کیا جانیے الفت کا ہے کس سے آغاز
- کس واسطے دی تھیں ہمیں یارب آنکھیں
- کس طرح سے گریہ کو نہ ہو طغیانی
- کس طرح کہوں آ بھی کہیں عذر نہ کر
- خورشید پہ جس وقت زوال آتا ہے
- خود رفتہ ہو بدمست ہو کیسا ہے مزاج
- کل تک تھی خلد خانہ زاد دہلی
- کہتا ہوں خدا لگتی عقیدے کے خلاف
- جو جا کے نہ آئے پھر جوانی ہے یہ شے
- جاہل کی ہے میراث قلقؔ تخت و تاج
- جب باپ موا تو پھر ہے بیٹا کیا شے
- جاں جائے پر امید نہ جائے گی کبھی
- اس وقت زمانے میں بہم ایسے ہیں
- اس بزم سے میدان میں جانا ہوگا
- اس عہد میں احتساب ایمانی کیا
- ہم کون ہیں اہتمام کرنے والے
- ہر زخم جگر کھایا ہے دل پر تن کر
- ہر طرح سے ضائع ہے یہاں ہر اوقات
- ہر روز خوشی ہے شب غم سے پامال
- ہر فصل میں ہوتے ہیں جواں سارے شجر
- ہے مہر کرم گناہ گاری میری
- ہے دوستیٔ آل عبا رونے سے
- ہے بس کہ جوانی میں بڑھاپے کا غم
- غیروں کو شب وصل بلانے سے غرض
- گردن کو جھکا دیتا ہے ادنیٰ احسان
- گاہے تو کرم ہم پہ بھی فرمائیں آپ
- فانی کے ہے نزدیک بقا کو بھی فنا
- دنیا میں قلقؔ کیا ہے سراسر ہے خاک
- دنیا کا تمام کارخانہ ہے عبث
- دنیا کا عجب رنگ سے دیکھا انگیز
- دنیا ہے عجب بو قلموں ضد آموز
- دیں ہی بے ہوش ہے نہ دنیا بے ہوش
- دل سے مجھے آنے کی ہے آن کی آہٹ
- دل جوش معاصی سے نہ کیوں خوں ہو جائے
- دل دیر گزاری سے ہے آوند نمک
- دروازے پہ تیرے ہی مروں گا یارب
- دامن سے گل تازہ مہکتے نکلے
- بے برگ و نوا کی شعر خوانی معلوم
- بانو نے کہا قطرہ نہیں شیر کا ہے
- اے پردہ نشیں سہل ہوا یہ اشکال
- اے چشم غمیں تیرے عوض روئے کون
- اے ابر کہاں تک ترے رستے دیکھیں
- افسوس تری وضع پہ آتا ہے قلقؔ
- افسانۂ یار بہر وصلت ہے لذیذ
- آلودہ خیالات میں تیرے ہوں مدام
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |