آگے کیا تم سا جہاں میں کوئی محبوب نہ تھا
آگے کیا تم سا جہاں میں کوئی محبوب نہ تھا
کیا تمہیں خوب بنے اور کوئی خوب نہ تھا
ان دنوں ہم سے جو وحشی کی طرح بھڑکو ہو
یہ تو ملنے کا تمہارے کبھو اسلوب نہ تھا
نامہ بر دل کی تسلی کے لیے بھیجوں ہوں
ورنہ احوال مرا قابل مکتوب نہ تھا
طاقت اب طاق ہوئی صبر و شکیبائی کی
کب تلک صبر کرے دل مرا ایوب نہ تھا
غلبۂ عشق نے حاتمؔ کو پچھاڑا آخر
زور میں اپنے وہ اتنا بھی تو مغلوب نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |