Author:شیخ ظہور الدین حاتم
شیخ ظہور الدین حاتم (1699 - 1783) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- زور یارو آج ہم نے فتح کی جنگ فلک
- یار نکلا ہے آفتاب کی طرح
- وحشت سے ہر سخن مرا گویا غزالہ ہے
- طرفہ معجون ہے ہمارا یار
- تمہارے عشق میں ہم ننگ و نام بھول گئے
- تو صبح دم نہ نہا بے حجاب دریا میں
- تو جو کہتا ہے بولتا کیا ہے
- تو دیکھ اسے سب جا آنکھوں کے اٹھا پردے
- تھا پاس ابھی کدھر گیا دل
- تری جو زلف کا آیا خیال آنکھوں میں
- تری بھواں کی تیغ جب آئی نظر مجھے
- ترا دل یار اگر مائل کرے ہے
- توبہ زاہد کی توبہ تلی ہے
- طریقت میں اگر زاہد مجھے گمراہ جانے ہے
- شیخ تو تو مرید ہستی ہے
- شہر میں پھرتا ہے وہ مے خوار مست
- ساقی مجھے خمار ستائے ہے لا شراب
- صنم کے دیکھ کر لب اور دہن سرخ
- سچ اگر پوچھو تو نا پیدا ہے یک رو آشنا
- سب مخالف جب کنارے ہو گئے
- رونا وہی جو خوف الٰہی سے روئیے
- رکھتا ہوں میں حق پر نظر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو
- پھر خبر اس فصل میں یارو بہار آنے کی ہے
- نے شکوہ مند دل سے نہ از دست دیدہ ہوں
- نظر سے جب اکستا ہے مرا دل
- نہ تن میں استخوان نے رگ رہی ہے
- نہ محتسب سے یہ مجھ کو غرض نہ مست سے کام
- نہ کچھ ستم سے ترے آہ آہ کرتا ہوں
- نہ اتنا چاہئے اے پر شکم خواب
- نہ بلبل میں نہ پروانے میں دیکھا
- مجھے کیا دیکھ کر تو تک رہا ہے
- ملا دئے خاک میں خدا نے پلک کے لگتے ہی شاہ لاکھوں
- میں ذات کا اس کی آشنا ہوں
- میں اپنے دست پر شب خواب میں دیکھا کہ اخگر تھا
- مے ہو ابر و ہوا نہیں تو نہ ہو
- کیونکہ دیوانہ بیڑیاں توڑے
- کیا اس کی صفت میں گفتگو ہے
- کیا ستاتے ہو رہو بندہ نواز
- کیا ہوا گر شیخ یارو حاجی الحرمین ہے
- کن کے کہنے میں جو ہوا سو ہوا
- کوئی دیتا نہیں ہے داد بے داد
- کس ستم گر کا گناہ گار ہوں اللہ اللہ
- کون دل ہے کہ ترے درد میں بیمار نہیں
- کشش سے دل کی اس ابرو کماں کو ہم رکھا بہلا
- کروں ہوں رات دن پھیرے کئی پھیرے میاں صاحب
- کلیجا منہ کو آیا اور نفس کرنے لگا تنگی
- کہیں وہ صورت خوباں ہوا ہے
- جنبش دل نہیں بے جا تو کدھر بھولا ہے
- جو مرے ہم عصر ہم صحبت تھے سو سب مر گئے
- جو مے خانہ میں جاتا تھا قدم رکھتے جھجھکتا تھا
- جو کوئی کہ یار و آشنا ہے
- جس نے آدم کے تئیں جاں بخشا
- جس کوں پی کا خیال ہوتا ہے
- جس کو دیکھا سو یہاں دشمن جاں ہے اپنا
- جی ترستا ہے یار کی خاطر
- جلوہ گر فانوس تن میں ہے ہمارا من چراغ
- جب وہ عالی دماغ ہنستا ہے
- جب سے تمہاری آنکھیں عالم کو بھائیاں ہیں
- جب آپ سے ہی گزر گئے ہم
- اس کی قدرت کی دید کرتا ہوں
- عشق نے چٹکی سی لی پھر آ کے میری جاں کے بیچ
- عشق نہیں کوئی نہنگ ہے یارو
- عشق میں پاس جاں نہیں ہے درست
- عشق کے شہر کی کچھ آب و ہوا اور ہی ہے
- اس زمانے میں نہ ہو کیوں کر ہمارا دل اداس
- اس واسطے نکلوں ہوں ترے کوچے سے بچ بچ
- اس دکھ میں ہائے یار یگانے کدھر گئے
- اس دور کے اثر کا جو پوچھو بیاں نہیں
- ہم کو کب انتظار ہے فصل بہار ہو نہ ہو
- ہووے وہ شوخ چشم اگر مجھ سے چار چشم
- ہو رہا ہے ابر اور کرتا ہے وہ جانانہ رقص
- ہستی کی قید سے اے دل آزاد ہوئیے
- ہر گل اس باغ کا نظروں میں دہاں ہے گویا
- ہمیں یاد آوتی ہیں باتیں اس گل رو کی رہ رہ کے
- ہماری سیر کو گلشن سے کوئے یار بہتر تھا
- ہماری عقل بے تدبیر پر تدبیر ہنستی ہے
- گل کی اور بلبل کی صحبت کو چمن کا شانہ ہے
- گزک کی اس قدر اے مست تجھ کو کیا شتابی ہے
- گر بھلا مانس ہے تو خندوں سے تو مل مل نہ ہنس
- فکر میں مفت عمر کھونا ہے
- ایک تو تری دولت تھا ہی دل یہ سودائی
- ایک مدت سے طلب گار ہوں کن کا ان کا
- احسان ترا دل مرا کیا یاد کرے گا
- دنیا خیال و خواب ہے میری نگاہ میں
- دل مرا آج یار میں ہے گا
- دیکھتے سجدے میں آتا ہے جو کرتا ہے نگاہ
- دیکھنے سے ترے جی پاتا ہوں
- دیکھنا اس کی تجلی کا جسے منظور ہے
- دیکھا کسی نے ہم سے زمانے نے کیا کیا
- دیکھ بنیاد رب کی آدم ہے
- دورا ہے جب سے بزم میں تیری شراب کا
- درد دل میری آہ سے پوچھو
- دہن ہے تنگ شکر اور شکر ترا ہے کلام
- چمن میں دہر کے ہر گل ہے کان کی صورت
- بے ترے جان نہ تھی جان مری جان کے بیچ
- بندہ اگر جہاں میں بجائے خدا نہیں
- باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے
- اوقات شیخ گو کہ سجود و قیام ہے
- عجب احوال دیکھا اس زمانے کے امیروں کا
- اے دل نہ کر تو فکر پڑے گا بلا کے ہاتھ
- ابر میں یاد یار آوے ہے
- اب کی چمن میں گل کا نے نام و نے نشاں ہے
- عاشقوں کے سیر کرنے کا جہاں ہی اور ہے
- عاشق کا جہاں میں گھر نہ دیکھا
- آج دل بر کے نام کو رٹ رٹ
- آئی عید و دل میں نہیں کچھ ہوائے عید
- آگے کیا تم سا جہاں میں کوئی محبوب نہ تھا
- آب حیات جا کے کسو نے پیا تو کیا
مثنوی
edit
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |