آں سے ظالم کا امتحاں اور میں
آں سے ظالم کا امتحاں اور میں
یہ ستم تیرے آسماں اور میں
کبھی کہتا ہوں اب وہ آتے ہیں
کبھی کہتا ہوں وہ کہاں اور میں
بے قراری دلا رہی ہے یاد
ہائے وہ تیری شوخیاں اور میں
نہیں سنتا کوئی کسی کی جہاں
غم ہجراں کی داستاں اور میں
آخر آ ہی گئی فغاں لب پر
ضبط راز غم نہاں اور میں
چرخ بھولا ہوا ہے کیا گردش
یار کے گھر میں میہماں اور میں
کچھ کہے جاؤ کچھ سنے جاؤ
تم سے دو چار بد گماں اور میں
وہ گلی اور رات بھر پھرنا
دور باش نگہ یاں اور میں
فکر دشواریٔ مطالب میں
ایک بیچارہ راز داں اور میں
آئنے ورنہ دیکھ لیجئے گا
ہر جگہ آپ کا بیاں اور میں
پوچھ سالکؔ نہ میرا گھر مجھ سے
رات دن ہے در بتاں اور میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |