Author:قربان علی سالک بیگ
قربان علی سالک بیگ (1824 - 1880) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- ہزار وعدے کیے ہیں تم نے کبھی کسی کو وفا نہ کرنا
- اب تو لب سے نہ جائے گا آگے
- مضطرب ہوں اب یہ جی کی بات ہے
- دل وہ شے ہے کہ جو دیکھے تو کھچے یار کے ساتھ
- کچھ مجھے کہہ کے نہ کہوائیے آپ
- چاک جگر و دل کا جب شکوہ بجا ہوتا
- ہاتھ میں لے کے نہ خنجر بیٹھیے
- اٹھے آج ان سے فیصلہ کر کے
- بھول کر بھی ادھر نہیں آتا
- انتہا صبر آزمائی کی
- جس قدر ضبط کیا اور بھی رونا آیا
- دل محبت مکان ہے گویا
- دل جہاں سے اٹھائے بیٹھے ہیں
- یہ کیا لطف شور فغاں رہ گیا
- دل پہ آفت آئی اب اک آن میں
- اچھی نبھی بتان ستم آشنا کے ساتھ
- رکھو وہ شیوہ نہ مد نظر نظر میں رہے
- آں سے ظالم کا امتحاں اور میں
- واعظ ملے گی خلد میں کب اس قدر شراب
- وہ زیب شبستاں ہوا چاہتا ہے
- مجھ پر ایسی جفا کی کثرت کی
- ملی نہ فرصت جہاں ہو غش سے اٹھی جو کچھ بھی نقاب عارض
- گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا
- میں ہوا زینت مکان قفس
- نالاں نہیں کچھ ترے ستم پر
- جی ہیچ جان ہیچ نہ دل نے جگر عزیز
- خیال گزرے کہاں کہاں کا ارادہ ان کو ہو گر یہیں کا
- انسان ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا
- کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے
- دیر و کعبہ کو رہ گزر سمجھے
- لطف میں واں ڈھنگ ہے بیداد کا
- یوں عیاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
- جو بھر لیں ایک چٹکی صاحب تاثیر مٹی کی
- مری خاطر میں ساقی کب ترا پیمانہ آتا ہے
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |