آہوں سے ہوں گے گنبد ہفت آسماں خراب
آہوں سے ہوں گے گنبد ہفت آسماں خراب
کس کس مکان کو نہ کرے گا دھواں خراب
مر کر بھی اپنے ساتھ رہیں ہرزہ گردیاں
ہے مشت خاک صورت ریگ رواں خراب
قامت وہ ہے کہ جس سے قیامت ہے آشکار
نقشہ وہ ہے کہ جس سے ہے نقش جہاں خراب
تاب و تواں کو جسم میں یوں ڈھونڈھتی ہے روح
جیسے غبار راہ پس کارواں خراب
ناساز ہو مزاج تو باتوں میں کیا مزا
بیمار کی طرح ہے زبان و دہاں خراب
زیور زوال حسن میں پہنا تو کیا بہار
پتے سنہرے صورت برگ خزاں خراب
قطمیر سے کروں گا سگ یار کا گلا
مرقد کے غار میں جو ہوئیں ہڈیاں خراب
اے بحرؔ تجھ کو ڈھونڈ پھرے شش جہت میں ہم
تیرا پتا کہیں بھی ہے او خانماں خراب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |