آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں

آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں
by میر تقی میر

آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں
روز برسات کی ہوا ہے یاں

جس جگہ ہو زمین تفتہ سمجھ
کہ کوئی دل جلا گڑا ہے یاں

گو کدورت سے وہ نہ دیوے رو
آرسی کی طرح صفا ہے یاں

ہر گھڑی دیکھتے جو ہو ایدھر
ایسا کہ تم نے آ نکلا ہے یاں

رند مفلس جگر میں آہ نہیں
جان محزوں ہے اور کیا ہے یاں

کیسے کیسے مکان ہیں ستھرے
اک ازاں جملہ کربلا ہے یاں

اک سسکتا ہے ایک مرتا ہے
ہر طرف ظلم ہو رہا ہے یاں

صد تمنا شہید ہیں یکجا
سینہ کوبی ہے تعزیہ ہے یاں

دیدنی ہے غرض یہ صحبت شوخ
روز و شب طرفہ ماجرا ہے یاں

خانۂ عاشقاں ہے جاے خوب
جائے رونے کی جا بہ جا ہے یاں

کوہ و صحرا بھی کر نہ جائے باش
آج تک کوئی بھی رہا ہے یاں

ہے خبر شرط میرؔ سنتا ہے
تجھ سے آگے یہ کچھ ہوا ہے یاں

موت مجنوں کو بھی یہیں آئی
کوہ کن کل ہی مر گیا ہے یاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse