Author:میر تقی میر
میر تقی میر (1723 - 1810) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- ابتدائے عسق ہے روتا ہے کیا
- ہستی اپنی حباب کی سی ہے
- پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
- دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
- الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا
- جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
- فقیرانہ آئے صدا کر چلے
- اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
- یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
- کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
- آئے ہیں میرؔ کافر ہو کر خدا کے گھر میں
- غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
- زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت
- بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
- منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
- ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
- بارہا گور دل جھنکا لایا
- آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
- آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
- کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
- عمر بھر ہم رہے شرابی سے
- جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
- آئے ہیں میرؔ منہ کو بنائے خفا سے آج
- آہ جس وقت سر اٹھاتی ہے
- جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں
- ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
- اب جو اک حسرت جوانی ہے
- آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
- چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
- جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے
- عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی
- عام حکم شراب کرتا ہوں
- باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
- کچھ موج ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی
- آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
- تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
- عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
- برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے
- ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
- جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
- جیتے جی کوچۂ دل دار سے جایا نہ گیا
- آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے
- اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا
- بنی تھی کچھ اک اس سے مدت کے بعد
- آگے جمال یار کے معذور ہو گیا
- چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
- امیروں تک رسائی ہو چکی بس
- دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا
- لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا
- ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
- جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے
- اب نہیں سینے میں میرے جائے داغ
- ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
- شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت
- دل بیتاب آفت ہے بلا ہے
- اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب
- تا بہ مقدور انتظار کیا
- عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع
- اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
- آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
- اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
- غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر
- کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی
- گل کو محبوب ہم قیاس کیا
- بے یار شہر دل کا ویران ہو رہا ہے
- آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
- مکہ گیا مدینہ گیا کربلا گیا
- عالم میں کوئی دل کا طلب گار نہ پایا
- یار نے ہم سے بے ادائی کی
- آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں
- ہو گئی شہر شہر رسوائی
- شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط
- غزل میرؔ کی کب پڑھائی نہیں
- رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
- اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں
- میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
- عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا
- ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
- رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
- جو تو ہی صنم ہم سے بے زار ہوگا
- دل جو زیر غبار اکثر تھا
- پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے
- شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
- رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
- کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا
- اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا
- بزم میں جو ترا ظہور نہیں
- گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
- کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
- کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ
- جس جگہ دور جام ہوتا ہے
- جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف
- دل گئے آفت آئی جانوں پر
- چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
- چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت
- گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے
- شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا
- کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
- جو کہو تم سو ہے بجا صاحب
- کیا کروں شرح خستہ جانی کی
- نہ پوچھ خواب زلیخا نے کیا خیال لیا
- ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گل کے
- میرے سنگ مزار پر فرہاد
- نا کسی سے پاس میرے یار کا آنا گیا
- تیرا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا
- غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا
- کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
- میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
- سحر گہہ عید میں دور سبو تھا
- ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا
- ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی
- مشکل ہے ہونا روکش رخسار کی جھلک کے
- کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
- جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں
- چھاتی جلا کرے ہے سوز دروں بلا ہے
- دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی
- یکسو کشادہ روی پر چیں نہیں جبیں بھی
- دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم ترسا
- دل دماغ و جگر یہ سب اک بار
- خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح
- فلک کرنے کے قابل آسماں ہے
- لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
- برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بد گمان کا
- کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
- سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
- غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مر جائے
- کیا میں بھی پریشانیٔ خاطر سے قریں تھا
- لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید
- اے گل نو دمیدہ کے مانند
- فصل خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گل
- آہ کے تیں دل حیران و خفا کو سونپا
- پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا
- جی میں ہے یاد رخ و زلف سیہ فام بہت
- بند قبا کو خوباں جس وقت وا کریں گے
- اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
- عشق میں نے خوف و خطر چاہیے
- نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
- شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا
- کہتے ہیں بہار آئی گل پھول نکلتے ہیں
- کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
- اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی
- یہ میرؔ ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا
- دیکھے گا جو تجھ رو کو سو حیران رہے گا
- کیا کہیں آتش ہجراں سے گلے جاتے ہیں
- اب میرؔ جی تو اچھے زندیق ہی بن بیٹھے
- کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوریٔ بتاں سے
- پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا
- گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا
- مشہور چمن میں تری گل پیرہنی ہے
- اے ابر تر تو اور کسی سمت کو برس
- ادھر آ کر شکار افگن ہمارا
- کل شب ہجراں تھی لب پر نالہ بیمارانہ تھا
- درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
- جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں
- وحشت تھی ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
- جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر
- وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا
- ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا
- دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
- جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہوگا
- تیر جو اس کمان سے نکلا
- ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
- مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا
- بیتابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے
- کیا مصیبت زدہ دل مائل آزار نہ تھا
- رہے خیال تنک ہم بھی رو سیاہوں کا
- کیا لڑکے دلی کے ہیں عیار اور نٹ کھٹ
- کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے
- گل و بلبل بہار میں دیکھا
- پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے
- جھمکے دکھا کے طور کو جن نے جلا دیا
- دیر و حرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا
- بھلا ہوگا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہوگا
- یار میرا بہت ہے یار فریب
- واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
- نالۂ عجز نقص الفت ہے
- تاب دل صرف جدائی ہو چکی
- ناز چمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے
- ہر دم طرف ہے ویسے مزاج کرخت کا
- غلط ہے عشق میں اے بوالہوس اندیشہ راحت کا
- مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
- دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
- مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں
- محبت کا جب روز بازار ہوگا
- مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں
- سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
- جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
- نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم
- کہے ہے کوہ کن کر فکر میری خستہ حالی میں
- گزر جان سے اور ڈر کچھ نہیں
- بے کسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا
- یا رب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
- دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
- سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا
- دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا
- شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
- تری ابرو و تیغ تیز تو ہم دم ہیں یہ دونوں
- ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ
- گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا
- رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
- پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات
- فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو
- اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام
- کیا مرے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا
- تنگ آئے ہیں دل اس جی سے اٹھا بیٹھیں گے
- گلا نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا
- میں بھی دنیا میں ہوں اک نالہ پریشاں یک جا
- سیر کر عندلیب کا احوال
- گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی
- غیروں سے مل چلے تم مست شراب ہو کر
- چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے
- مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں
- کہاں تک غیر جاسوسی کے لینے کو لگا آوے
- شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک
- کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
- کیا میں نے رو کر فشار گریباں
- قابو خزاں سے ضعف کا گلشن میں بن گیا
- کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختری کی
- کب تلک جی رکے خفا ہووے
- رات پیاسا تھا میرے لوہو کا
- موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو
- مجھ سا بیتاب ہووے جب کوئی
- خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں
- کس شام سے اٹھا تھا مرے دل میں درد سا
- دست و پا مارے وقت بسمل تک
- دل میں بھرا ز بسکہ خیال شراب تھا
- موے سہتے سہتے جفا کاریاں
- یہ چشم آئینہ دار رو تھی کسو کی
- مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا
- بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی
- یار عجب طرح نگہ کر گیا
- پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
- سمجھے تھے میرؔ ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
- دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں
- ڈھونڈا نہ پائیے جو اس وقت میں سو زر ہے
- رات گزرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے
- یوں ہی حیران و خفا جوں غنچۂ تصویر ہوں
- زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں
- خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہو گیا
- ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
- کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
- کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشم تر سے
- ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر
- دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا
- ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو
- تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
- ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
- قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے
- کیسا چمن اسیری میں کس کو ادھر خیال
- دل صاف ہو تو جلوہ گہہ یار کیوں نہ ہو
- جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا
- دعوے کو یار آگے معیوب کر چکے ہیں
- حال دل میرؔ کا رو رو کے سب اے ماہ سنا
- ہیں بعد مرے مرگ کے آثار سے اب تک
- خط سے وہ زور صفائے حسن اب کم ہو گیا
- دزدیدہ نگہ کرنا پھر آنکھ ملانا بھی
- حصول کام کا دل خواہ یاں ہوا بھی ہے
- شیخ جی آؤ مصلیٰ گرو جام کرو
- شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے
- رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا
- دامان کوہ میں جو میں ڈاڑھ مار رویا
- مت ہو مغرور اے کہ تجھ میں زور ہے
- ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا
- نہ اک یعقوب رویا اس الم میں
- لخت جگر تو اپنے یک لخت رو چکا تھا
- بے روی و زلف یار ہے رونے سے کام یاں
- جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم
- رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا
- کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات
- ایک پرواز کو بھی رخصت صیاد نہیں
- ہے حال جائے گریہ جاں پر آرزو کا
- ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا
- کہیں پہنچو بھی مجھ بے پا و سر تک
- دہر بھی میرؔ طرفہ مقتل ہے
- اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں
- دل کے تیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا
- تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
- دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ
- خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں
- کل چمن میں گل و سمن دیکھا
- نکلے ہے جنس حسن کسی کارواں میں
- جب سے خط ہے سیاہ خال کی تھانگ
- سوزش دل سے مفت گلتے ہیں
- غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
- کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا
- طاقت نہیں ہے دل میں نے جی بجا رہا ہے
- کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی
- گئی چھاؤں اس تیغ کی سر سے جب کی
- کرتے ہی نہیں ترک بتاں طور جفا کا
- موہ میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا
- خوبرو سب کی جان ہوتے ہیں
- اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی
- ہمیں آمد میرؔ کل بھا گئی
- یہ ترک ہو کے خشن کج اگر کلاہ کریں
- ہجراں کی کوفت کھینچے بے دم سے ہو چلے ہیں
- کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنا
- گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا
- نہیں وسواس جی گنوانے کے
- نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا
- غیر نے ہم کو ذبح کیا نے طاقت ہے نے یارا ہے
- فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی
- خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے
- مستوجب ظلم و ستم و جور و جفا ہوں
- نہ گیا خیال زلف سیہ جفا شعاراں
- رہی نہ پختگی عالم میں دور خامی ہے
- خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو
- نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا
- کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی
- ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش
- خنجر بکف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے
- شب تھا نالاں عزیز کوئی تھا
- بو کہ ہو سوئے باغ نکلے ہے
- نالے کا آج دل سے پھر لب تلک گزر ہے
- کھوویں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں
- نئی طرزوں سے میخانے میں رنگ مے جھلکتا تھا
- جاں گداز اتنی کہاں آواز عود و چنگ ہے
- دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگاؤ ہے
- میں نے جو بے کسانہ مجلس میں جان کھوئی
- خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی
- کئی دن سلوک وداع کا مرے در پے دل زار تھا
- دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے
- جہاں اب خار زاریں ہو گئی ہیں
- کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
- کہنا ترے منہ پر تو نپٹ بے ادبی ہے
- مجھ سوز بعد مرگ سے آگاہ کون ہے
- قرار دل کا یہ کاہے کو ڈھنگ تھا آگے
- یاں سرکشاں جو صاحب تاج و لوا ہوئے
- کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے
- پشت پا ماری بسکہ دنیا پر
- رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا
- کلی کہتے ہیں اس کا سا دہن ہے
- جنس گراں کو تجھ سے جو لوگ چاہتے ہیں
- کثرت داغ سے دل رشک گلستاں نہ ہوا
- کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا
- گر کچھ ہو درد آئینہ یوں چرخ زشت میں
- جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو
- ہو عاجز کہ جسم اس قدر زور سے
- جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
- جب سے اس بے وفا نے بال رکھے
- طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے
- کر نالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں
- یاد ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا
- سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے
نظم
editرباعی
edit- یکسو یہ کہ عیش و کامرانی کرتے
- یاروں کو کدورتیں ہیں اب تو ہم سے
- ہیں گوکہ سبھی تمھاری پیاری باتیں
- ہیں قید قفس میں تنگ یوں تو کب کے
- ہم میرؔ سے کہتے ہیں نہ تو رویا کر
- ہم میرؔ برے اتنے ہیں وہ اتنا خوب
- ہم سے تو بتوں کی وہ حیا کی باتیں
- ہرچند کہ طاعت میں ہوا ہے تو پیر
- ہرچند کہ اے مہ اب تمامی ہے گی
- ہر لحظہ رلاتا ہے کڑھاتا ہے مجھے
- ہر صبح مرے سر پہ قیامت گذری
- ہر صبح غموں میں شام کی ہے ہم نے
- ہر روز نیا ایک تماشا دیکھا
- ہجراں میں کیا سب نے کنارہ آخر
- کیسا احساں ہے خلق عالم کرنا
- کیا کیا ہیں سلوک بد فقط غم ہی نہیں
- کیا کیا اے عاشقی ستایا تونے
- کیا کہیے خراب ہوتے ہم کیسے پھرے
- کیا کہیے ادا بتوں سے کیا ہوتی ہے
- کیا کوفت تھی دل کے لخت کوٹے نکلے
- کیا کریے بیاں مصیبت اپنی پیارے
- کیا میرؔ کا مذکور کریں سب ہے جہل
- کیا میرؔ تجھے جان ہوئی تھی بھاری
- کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں
- کی حسن نے تجھ سے بے وفائی آخر
- کہتا ہے یہ اپنی آنکھوں دیکھیں گے فقیر
- کوچے میں ترے آن کے اڑ بھی بیٹھے
- کو عمر کہ اب فکر امیری کریے
- کچھ میرؔ تکلف تو نہیں اپنے تئیں
- کچھ خواب سی ہے میرؔ یہ صحبت داری
- کاہے کو کوئی خراب خواری ہوتا
- وہ عہد گیا کہ جور اس کے سہیے
- وصف اپنے دنوں کے کس سے کہیے سارے
- میرؔ اس کے ہوئے تھے ہم جو یار خاطر
- میرؔ اس سے ملے کہ جو ملا بھی نہ کبھو
- ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے
- ملنا دلخواہ اب خیال اپنا ہے
- مسجد میں تو شیخ کو خروشاں دیکھا
- مستی نہ کر اے میرؔ اگر ہے ادراک
- مدت کے جو بعد جی بحال آتا ہے
- محشر میں اگر یہ آتشیں دم ہوگا
- مت مال کسی کا یار تل کر رکھنا
- لو یار ستمگر نے لڑائی کی ہے
- گو میرؔ کہ احوال نہایت ہے سقیم
- گو روکش ہفتاد و دو ملت ہم ہیں
- گذرا یہ کہ شکوہ و شکایت کیجے
- طوفان اے میرؔ شب اٹھائے تو نے
- طاعت میں جواں ہوتے تو کرتے تقصیر
- شب ابر کہ پیشرو ہو دریا جس کا
- سن سوز دروں کو اس کے جلیے بھنیے
- زانو پہ قد خم شدہ سر کو لایا
- روئے کوئی کیا گئی جوانی یوں کر
- رنجش کی کوئی اس کی روایت نہ سنی
- راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھیے
- دنیا میں بڑا روگ جو ہے الفت ہے
- دن فکر دہن میں اس کے جاتا ہے ہمیں
- دل غم سے ہوا گداز سارا اللہ
- دل خوں ہے جگر داغ ہے رخسار ہے زرد
- دل خون ہوا ضبط ہی کرتے کرتے
- دل جن کے بجا ہیں ان کو آتی ہے خواب
- دل جان جگر آہ جلائے کیا کیا
- دل تجھ پہ جلے نہ کیونکے میرا بے تاب
- درپیش ہے میرؔ راہ تجھ کو پیارے
- دامن عزلت کا اب لیا ہے میں نے
- حیرت ہے کہ ہو رقیب محرم تیرا
- حیرت کی یہ معرکے کی جا ہے بارے
- حسن ظاہر بھی ہے ہمارا دلخواہ
- حاصل نہیں دنیا سے بجز دل ریشی
- چپکے رہنا نہ میرؔ دل میں ٹھانو
- چپکا چپکا پھرا نہ کر تو غم سے
- جس وقت شروع یہ حکایت ہوگی
- جاں سے ہے بدن لطیف و رو ہے نازک
- جاناں نے ہمیں کبھو نہ جانا افسوس
- تیرا اے دل یہ غم فرو بھی ہوگا
- تسبیح کو مدتوں سنبھالا ہم نے
- تجھ رہ سے محال ہے اٹھانا مجھ کو
- تاچند تلف میرؔ حیا سے ہوگا
- پیغمبر حق کہ حق دکھایا اس کا
- پھر عشق میں میرؔ پاؤں دھرتا ہے گا
- پوچھو نہ کچھ اس بے سر و پا کی خواہش
- پردہ نہ اٹھاؤ بے حجابی نہ کرو
- پرپیچ بہت ہے شکن زلف سیاہ
- بس حرص و ہوا سے میرؔ اب تم بھاگو
- بت خانے سے دل اپنے اٹھائے نہ گئے
- اے میرؔ کہاں دل کو لگایا تونے
- اے تازہ نہال عاشقی کے مالی
- ایسا نہ ہوا کہ ہم نے شادی کی ہو
- اک وقت تھے ہم بھی خوش معاشی کرتے
- اک مرتبہ دل پہ اضطرابی آئی
- اوقات لڑکپن کے گئے غفلت میں
- اندیشۂ مرگ سے ہے سینہ سب ریش
- اندوہ کھپے عشق کے سارے دل میں
- اللہ کو زاہد جو طلب کرتے ہیں
- افسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی
- اغلب ہے وہ غم کا بار کھینچے گا میرؔ
- اتنے بھی نہ ہم خراب ہوتے رہتے
- اترا تھا غریبانہ کنارے آکر
- ابرو سے مہ نو نے کہاں خم مارا
- اب وقت عزیز کو تو یوں کھوؤگے
- اب صوم و صلوٰۃ سے بھی جی ہے بیزار
- اب شہر کی گلیوں میں جو ہم ہوتے ہیں
- آب حیواں نہیں گوارا ہم کو
- آئی نہ کبھو رسم تلطف تم کو
- تم تو اے مہربان انوٹھے نکلے
- اتنے بھی ہم خراب نہ ہوتے رہتے
مرثیہ
edit- (۳۴) کیا نحس تھا دن روز سفر ہائے حسینا
- (۳۳) الوداع اے افتخار نوع انساں الوداع
- (۳۲) دکھ سے ترے کیا کلام
- (۳۱) فلک نے ہونا اکبر کا نہ چاہا
- (۳۰) حسین ابن علی عالی نسب تھا
- (۲۹) حیدر کا جگر پارہ وہ فاطمہ کا پیارا
- (۲۸) بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار
- (۲۷) پھر کیا یہ دھوم ہے کہ جہاں ہے سیہ تمام
- (۲۶) اس گل باغ امامت کے ہیں پھول
- (۲۵) چہلم ہے اے محباں اس شاہ دوسرا کا
- (۲۴) آئی ہے شب قتل حسین ابن علی کی
- (۲۳) ابن علی سے سنا ہے یار و دشت بلا میں لڑائی ہوئی
- (۲۲) کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا
- (۲۱) نہ چھوڑی دشمنوں نے گھر میں شے دوست
- (۲۰) کیا گردوں نے فتنے کو اشارہ
- (۱۹) کہانی رات تھی آل نبی کی
- (۱۸) نسیم غم سے ہے آتش بجاں امام حسین
- (۱۷) قاسم کی شادی اس دم رچائی
- (۱۶) چاروں طرف ہے شور و فغاں وامصیبتا
- (۱۵) ہنگامہ چرخ تو نے جفا کا اٹھا دیا
- (۱۴) سجاد کو فلک نے کس کس طرح ستایا
- (۱۳) وقت رخصت کے جو روتی تھی کھڑی زار بہن
- (۱۲) نکلا ہے خیمہ شام کو شہ کا جلا ہوا
- (۱۱) دل تنگ ہو مدینے سے جب اٹھ چلا حسین
- (۱۰) سنو یہ قصۂ جانکاہ کربلاے حسین
- (۹) ایمان یہ کیسا تھا کیسی یہ مسلمانی
- (۸) آیا محرم غمگیں رہا کر
- (۷) گردوں نے کس بلا کو یہ کر دیا اشارہ
- (۶) امت تھی نبیؐ کی کہ یہ کفار حسینا
- (۵) فلک قتل سبط پیمبر ہے کل
- (۴) خاک تیرے فرق پر اے بے مروت آسماں
- (۳) تحیات اے عزیزاں بابت آل پیمبرؐ ہے
- (۲) محرم کا نکلا ہے پھر کر ہلال
- (۱) تمامی حجت کی خاطر امام
قصیدہ
edit- در مدح نواب آصف الدولہ بہادر
- در مدح نواب آصف الدولہ بہادر
- در مدح حضرت علی مرتضےٰ ؓ
- در مدح حضرت علی مرتضےٰ ؓ
- در مدح حضرت علی مرتضےٰ ؓ
- در مدح حضرت امام حسینؓ
- در مدح بادشاہ جم جاہ، خاور سپاہ، شاہ عالم بادشاہ
- در شکایت نفاق یاران زماں
نعت
editقطعہ
edit- درہجو خواجہ سراے
- در تعریف اسپ و زیر زماں آصف دوراں نواب آصف الدولہ بہادر
- یہی درد جدائی ہے جو اس شب
- وائے اس جینے پر اے مستی کہ دور چرخ میں
- تسکین دل کے واسطے ہر کم بغل کے پاس
- تڑپ ہے قیس کے دل میں تہ زمیں اس سے
- تاب و طاقت کو تو رخصت ہوئے مدت گزری
- سنا ہے چاہ کا دعویٰ تمہارا
- پھولوں کی سیج پر سے جو بے دماغ اٹھے
- پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق
- نہ سمجھا گیا ابر کیا دیکھ کر
- نہ جانوں میرؔ کیوں ایسا ہے چپکا
- نہ آیا وہ تو کیا ہم نیم جاں بھی
- میرؔ کو ضعف میں میں دیکھ کہا کچھ کہئے
- میں بے نوا اڑا تھا بوسے کو ان لبوں کے
- مے کشی صبح و شام کرتا ہوں
- کوہ و صحرا بھی کر نہ جائے باش
- خوب ہے خاک سے بزرگوں کی
- ہوا ہے اہل مساجد پہ کام از بس تنگ
- ہو عاشقوں میں اس کے تو آؤ میرؔ صاحب
- ہر چند گدا ہوں میں ترے عشق میں لیکن
- حال بد میں مرے بتنگ آ کر
- گہ سرگزشت ان نے فرہاد کی نکالی
- دنیا سے در گزر کہ گزر گہہ عجب ہے یہ
- دل ٹک ادھر نہ آیا ایدھر سے کچھ نہ پایا
- بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا
سلام
edit- (۷) السلام اے کام جان مصطفےٰؐ
- (۶) اے سبط مصطفےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے
- (۵) اے شہ اقلیم شوکت السلام
- (۴) اے گل خوش رنگ گلزار شہادت السلام
- (۳) ساقی کوثر کے پیارے السلام
- (۲) اے بدخشان نبیؐ کے لعل احمر السلام
- (۱) اے شہ عالی مقام تجھ پہ درود و سلام
منقبت
edit- ہفت بند در مدح حضرت علیؓ
- مسدس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ
- مسدس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ
- مسدس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ
- مخمس در مدح حضرت علیؓ
- مخمس در مدح حضرت علیؓ
- مخمس در مدح حضرت علیؓ
- مخمس در مدح حضرت علیؓ
- مخمس در مدح حضرت علیؓ
- مخمس در مدح حضرت علیؓ
- مخمس در مدح حضرت علیؓ
- مخمس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ
- مخمس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ
- مخمس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ
- ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ
مثنوی
edit- کپی کا بچہ
- موہنی بلی
- مورنامہ
- معاملات عشق
- مرثیۂ خروس کہ در خانۂ فقیر بود
- شکار نامۂ دوم
- شکار نامۂ اول
- شعلۂ عشق
- ساقی نامہ
- دریاے عشق
- در ہجو نااہل مسمیٰ بہ زبان زد عالم
- در ہجو عاقل نام، ناکسے کہ بہ سگاں انسے تمام داشت
- در ہجو شخصے ہیچمداں کہ دعواے ہمہ دانی داشت
- در ہجو اکول
- در مذمت برشگال کہ باراں دراں سال بسیار شدہ بود
- در مذمت آئینہ دار
- در حال مسافر جواں
- در حال عشق
- در حال افغاں پسر
- در جشن ہولی و کتخدائی
- در تہنیت کدخدائی بشن سنگھ
- در تعریف سگ و گربہ کہ در خانۂ فقیر بودند و باہم ربط داشتند
- در تعریف آغا رشید کہ خطاط بود و بہ فرمائش میاں اعزالدین کہ فقیر و خوشنویس بودند
- در بیان کذب
- در بیان کدخدائی نواب آصف الدولہ بہادر
- در بیان مرغ بازاں
- در بیان دنیا
- در بیان بز
- خواب و خیال
- جوش عشق
- جنگ نامہ
- تنبیہ الجہال
- تسنگ نامہ
- اعجاز عشق
- اژدرنامہ
- در بیان ہولی
وسوخت
edit- (۴) ایک دن وے تھے کہ تم کو نہ فریب آتے تھے
- (۳) یاد ایام کہ خوبی سے خبر تجھ کو نہ تھی
- (۲) سچ کہو شہر میں صحرا میں کہاں رہتے ہو
- (۱) طرز اے رشک چمن اب تری کچھ تازی ہے
تزمین
editترکیب بند
editمیریات
editWorks by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |