آہ بیمار کارگر نہ ہوئی
آہ بیمار کارگر نہ ہوئی
چرخ کانپا مگر سحر نہ ہوئی
صبح محشر ہوئی شب تاریک
صورت یار جلوہ گر نہ ہوئی
شب امید کٹ گئی لیکن
زندگی اپنی مختصر نہ ہوئی
دور سے آج ان کو دیکھ لیا
دل کو تسکیں ہوئی مگر نہ ہوئی
آنکھوں آنکھوں میں لے لیا وعدہ
کانوں کان ایک کو خبر نہ ہوئی
اف ری چشم عتاب اف رے جلال
برق سوزاں ہوئی نظر نہ ہوئی
فکر انجام و حسرت آغاز
دو گھڑی چین سے بسر نہ ہوئی
کھلنے والا نہیں در توبہ
فکر انجام وقت پر نہ ہوئی
ایسا رونا بھی کوئی رونا ہے
آستین آنسوؤں سے تر نہ ہوئی
ہٹ کے بالیں سے لوگ روتے ہیں
جیسے بیمار کو خبر نہ ہوئی
لٹ گیا سارا کارواں عدم
ایک کو ایک کی خبر نہ ہوئی
نیم جاں چھوڑ کر چلا قاتل
نگہ یاسؔ کارگر نہ ہوئی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |