آہ جو دل سے نکالی جائے گی
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی
اس نزاکت پر یہ شمشیر جفا
آپ سے کیوں کر سنبھالی جائے گی
کیا غم دنیا کا ڈر مجھ رند کو
اور اک بوتل چڑھا لی جائے گی
شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا
احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی
یاد ابرو میں ہے اکبرؔ محو یوں
کب تری یہ کج خیالی جائے گی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |