Author:اکبر الہ آبادی
اکبر الہ آبادی (1846 - 1921) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
- دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
- آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے
- آہ جو دل سے نکالی جائے گی
- غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
- چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
- دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
- بہت رہا ہے کبھی لطف یار ہم پر بھی
- فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
- حال دل میں سنا نہیں سکتا
- حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
- اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے
- گلے لگائیں کریں پیار تم کو عید کے دن
- وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
- اک بوسہ دیجئے مرا ایمان لیجئے
- جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا
- ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو
- سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
- بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک
- درد تو موجود ہے دل میں دوا ہو یا نہ ہو
- آج آرائش گیسوئے دوتا ہوتی ہے
- ضد ہے انہیں پورا مرا ارماں نہ کریں گے
- پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
- ہر قدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لیے
- امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے
- کہاں وہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے
- بے تکلف بوسۂ زلف چلےپا لیجئے
- اپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے
- خوشی ہے سب کو کہ آپریشن میں خوب نشتر یہ چل رہا ہے
- جذبۂ دل نے مرے تاثیر دکھلائی تو ہے
- نہ بہتے اشک تو تاثیر میں سوا ہوتے
- تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
- نہ روح مذہب نہ قلب عارف نہ شاعرانہ زبان باقی
- خدا علی گڑھ کی مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے
- کیا جانیے سید تھے حق آگاہ کہاں تک
- عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا
- اگر دل واقف نیرنگیٔ طبع صنم ہوتا
- رنگ شراب سے مری نیت بدل گئی
- ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ مبیں کا
- نہ حاصل ہوا صبر و آرام دل کا
- معنی کو بھلا دیتی ہے صورت ہے تو یہ ہے
- شیخ نے ناقوس کے سر میں جو خود ہی تان لی
- طریق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا
- ختم کیا صبا نے رقص گل پہ نثار ہو چکی
- دل مایوس میں وہ شورشیں برپا نہیں ہوتیں
- جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا
- انہیں نگاہ ہے اپنے جمال ہی کی طرف
- دل ہو خراب دین پہ جو کچھ اثر پڑے
- جو تمہارے لب جاں بخش کا شیدا ہوگا
- دشت غربت ہے علالت بھی ہے تنہائی بھی
- ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیں
- حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے
- خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے
- تم نے بیمار محبت کو ابھی کیا دیکھا
- میری تقدیر موافق نہ تھی تدبیر کے ساتھ
- مذہب کا ہو کیوں کر علم و عمل دل ہی نہیں بھائی ایک طرف
- صدیوں فلاسفی کی چناں اور چنیں رہی
- حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی
- جلوہ عیاں ہے قدرت پروردگار کا
- مل گیا شرع سے شراب کا رنگ
- کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
- یہ سست ہے تو پھر کیا وہ تیز ہے تو پھر کیا
- مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر
- نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرم جوشی کی
- یوں مری طبع سے ہوتے ہیں معانی پیدا
- وزن اب ان کا معین نہیں ہو سکتا کچھ
- حرم کیا دیر کیا دونوں یہ ویراں ہوتے جاتے ہیں
- میرے حواس عشق میں کیا کم ہیں منتشر
- لطف چاہو اک بت نوخیز کو راضی کرو
- روشن دل عارف سے فزوں ہے بدن ان کا
نظم
edit- نئی تہذیب
- مس سیمیں بدن
- مدرسہ علی گڑھ
- جلوۂ دربار دہلی
- دربار1911
- آم نامہ
- سید سے آج حضرت واعظ نے یہ کہا
- سب جانتے ہیں علم سے ہے زندگی کی روح
رباعی
edit- اس قوم کو یک دلی کی رغبت ہی نہیں
- علم و حکمت میں ہو اگر خواہش فیم
- بہتر ہے یہی کہ اب علی گڑھ چلئے
- مسکین گدا ہو یا ہو شاہ ذی جاہ
- غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھا
- ہے حرص و ہوس کے فن کی مجھ کو تکمیل
- جو حسرت دل ہے وہ نکلنے کی نہیں
- افسوس سفید ہو گئے بال ترے
- ہمدرد ہوں سب یہ لطف آبادی ہے
- کہہ دو کہ میں خوش ہوں رکھوں گر آپ کو خوش
- اب تک جو کہیں ہماری قسمت نہ لڑی
- سید صاحب سکھا گئے ہیں جو شعور
- دلکش نہیں وہ حسیں جسے شرم نہیں
- لفظوں کے چمن بھی اس میں کھل جاتے ہیں
- روزی مل جائے مال و دولت نہ سہی
- تدبیر کریں تو اس میں ناکامی ہو
- اعزاز سلف کے مٹتے جاتے ہیں نشاں
- افسوس ہے بد گماں کی آزادی پر
- لذت چاہو تو وصل معشوق کہاں
- شیطان سے دل کو ربط ہو جاتا ہے
- بھائے جو نگاہ کو وہی رنگ اچھا
- رکتا نہیں انقلاب چارا کیا ہے
- وہ لطف اب ہندو مسلماں میں کہاں
- جب تک ہے ہم میں قومی خصلت باقی
- الفت نہ ہو شیخ کی تو عزت ہی سہی
- ہر ایک کو نوکری نہیں ملنے کی
- پابند اگرچہ اپنی خواہش کے رہو
- دنیا کرتی ہے آدمی کو برباد
- ہے صاف عیاں حرم سرا کا مطلب
- تکمیل میں ان علوم کے ہو مصروف
- حاسد تجھ پر اگر حسد کرتا ہے
- اکبرؔ مجھے شک نہیں تیری تیزی میں
- رسوا وہ ہوا جو مست پیمانہ ہوا
- طاقت وہ ہے با اثر جو سلطانی ہے
- لے لے کے قلم کے لوگ بھالے نکلے
- دنیا سے میل کی ضرورت ہی نہیں
- کیا تم سے کہیں جہاں کو کیسا پایا
- رکھو جو مقابل اس کے سارا عالم
- سنتا نہیں کچھ کسی سے بڑھ بڑھ کے سوا
- کہتا ہوں تو تہمت حسد ہوتی ہے
- غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھا
- بھولتا جاتا ہے یورپ آسمانی باپ کو
- در پر مظلوم اک پڑا روتا ہے
- افسوس ان پر فلک نے پایا قابو
- اسمال نہیں گریٹ ہونا اچھا
- سچ ہے کہ انہوں نے ملک لے رکھا ہے
- یہ بات غلط کہ دار الاسلام ہے ہند
- ہر ایک سے سنا نیا فسانہ ہم نے
- دولت بھی ہے فلسفہ بھی ہے جاہ بھی ہے
- عاشق کا خیال ہے بہت نیک معاش
قطعہ
edit- تعجب سے کہنے لگے بابو صاحب
- دیکھتا ہے اک عمر سے بندہ
- قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبر
- اب کہاں تک بت کدہ میں صرف ایماں کیجئے
- واہ رے سید پاکیزہ گہر کیا کہنا
- جس روشنی میں لوٹ ہی کی آپ ہمیں سوجھے
- نئی تہذیب میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے
- چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
- میں نے کہا کیوں لاش پہ آقا کی ہے مرتا
- کونسل میں نکتہ چینوں کی ٹولی بہت پٹی
- ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے
- جو لوگ طرف دار علی گڑھ کے رہیں گے
- اک برگ مضمحل نے یہ اسپیچ میں کہا
- عشرتیؔ گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
- بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
- کہے کوئی شیخ سے یہ جا کر
- فضل خدا سے عزت پائی
مخمس
editمزاحیہ
edit
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |