آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت
آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت
اب نظر آئے ہے واں نوحہ گری کی صورت
نہ وہ انداز نہ آواز نہ عشوہ نہ ادا
یک بہ یک مٹ گئی یوں جلوہ گری کی صورت
اب خیال اس کا وہاں آنکھوں میں پھرتا ہے مری
کوئی پھرتا تھا جہاں کبک دری کی صورت
اس کے جانے سے مرا دل ہے مرے سینے میں
دم کا مہمان چراغ سحری کی صورت
نے خبر اس کو مری پہنچے ہے نے اس کی مجھے
بندھ گئی ہے عجب اک بے خبری کی صورت
نام لوں کس کا کہ اک گل کے لیے جاتے ہیں
اشک آنکھوں سے عقیق جگری کی صورت
مصحفیؔ ہے یہی اب سوچ کہ دیکھیں تو فلک
پھر بھی دکھلائے گا یار سفری کی صورت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |