آہ شب نالۂ سحر لے کر
آہ شب نالۂ سحر لے کر
نکلے ہم توشۂ سفر لے کر
شغل ہے نالہ کچھ مراد نہیں
کیا کروں اے فلک اثر لے کر
تیری محفل کا یار کیا کہنا
ہم بھی نکلے ہیں چشم تر لے کر
آپ میں نے دیا دل اس بت کو
جھک گئی شاخ خود ثمر لے کر
تھا قفس کا خیال دامن گیر
اڑ سکے ہم نہ بال و پر لے کر
وحشتؔ اس بزم میں رہے تھے رات
صبح نکلے ہیں درد سر لے کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |