آیا جو موسم گل تو یہ حساب ہوگا

آیا جو موسم گل تو یہ حساب ہوگا
by وزیر علی صبا لکھنؤی
303400آیا جو موسم گل تو یہ حساب ہوگاوزیر علی صبا لکھنؤی

آیا جو موسم گل تو یہ حساب ہوگا
ہم ہوں گے یار ہوگا جام شراب ہوگا

نالوں سے اپنی اک دن وہ انقلاب ہوگا
دم بھر میں آسماں کا عالم خراب ہوگا

دکھلائیں گے تجھے ہم داغ جگر کا عالم
منہ اس طرف کبھی تو اے آفتاب ہوگا

اے زاہد ریائی دیکھی نماز تیری
نیت اگر یہی ہے تو کیا ثواب ہوگا

وہ رد خلق ہوں میں گر ڈوب کر مروں گا
مردہ مرا وبال دوش حباب ہوگا

وہ مست ہیں ادھر تو رکھتے نہیں ہیں ساغر
مغرب سے ہاں نمایاں جب آفتاب ہوگا

اے زود رنج تجھ پر جو لوگ جان دیں گے
رہ رہ کے تربتوں میں ان پر عذاب ہوگا

خون سیاوش اک دن دکھلائے گا خرابی
اس ظلم کا عوض اے افراسیاب ہوگا

تو نقد دل کو لے کر مکرا تو ہی ٹھہر جا
روز حساب میرے تیرے حساب ہوگا

اللہ رے ان کا غصہ اتنا نہیں سمجھتے
کیوں کر کوئی جئے گا جب یوں عتاب ہوگا

داغ جگر کو لے کر جائیں گے ہم جو اے دل
جنت میں حوریوں کو رہنا عذاب ہوگا

کیا سیر ہوگی وہ مہ لایا اگر حرارا
چہرہ جو تمتمایا تو آفتاب ہوگا

وہ رند ہوں میں زاہد آنے دے حشر کا دن
اس روز بھی یہ بندہ مست شراب ہوگا

برسات ہے بہاریں ساقیٔ برق وش کو
چھایا ہوا چمن پر کیسا سحاب ہوگا

اے مہروش تو کیوں کر پردے میں چھپ سکے گا
ابر تنک کی صورت منہ پر نقاب ہوگا

اے چرخ پیر اب تو یہ حال ہے ستم کا
کیا ہوگا جن دنوں میں تیرا شباب ہوگا

اے مغبچوں تمہارا بایاں قدم میں لونگا
زاہد کا گر عمامہ رہن شراب ہوگا

دھوئے گا اپنے تلوے وہ بت جو سنگ پاسی
شیریں کا بے ستوں پر نقشہ خراب ہوگا

زلفوں کا عشق کیوں کر ان سے بیاں کروں گا
حال دل پریشاں گونگے کا خواب ہوگا

سر کشتگی میں میرا کیا ساتھ دے سکے گا
اے آسماں ٹھہر جا نا حق خراب ہوگا

فرقت میں ضبط نالہ ہم سے نہ ہو سکے گا
قابو میں دل نہ ہوگا جب اضطراب ہوگا

لکھے کی کیا خبر تھی یہ کون جانتا تھا
لیلہ کے ساتھ پڑھ کر مجنوں خراب ہوگا

ایمان تم صباؔ کا اس وقت دیکھ لینا
آنکھوں میں دم لبوں پر یا بو تراب ہوگا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.