آیا محرم غمگیں رہا کر

آیا محرم غمگیں رہا کر
by میر تقی میر
313524آیا محرم غمگیں رہا کرمیر تقی میر

آیا محرم غمگیں رہا کر
ابن علی کا ماتم رکھا کر
شیون جہاں ہو رو روز جاکر
آخر نبیؐ کے منھ سے حیا کر

صرف خزاں ہے باغ امامت
اچھی نہیں کچھ یاں کی علامت
ہر گل کے سر پر ہے اک قیامت
پیراہن اپنا تو بھی قبا کر

کھنچ جا علی کی اولاد کی اور
نزدیک سب کے ہے یہ طرف زور
سن کربلا کا ہنگامہ و شور
غم سے کماں ساں ہر دم نوا کر

مٹی میں بوٹے اٹنے لگے ہیں
اشجار سارے کٹنے لگے ہیں
گل پھول جو ہیں چھٹنے لگے ہیں
جوں ابر تو بھی رو دل لگا کر

شبیر و احمد نانا نواسا
جس کی نہ خاطر نے کچھ دلاسا
ہفتم سے رکھا اس کو پیاسا
آخر موا وہ گردن کٹا کر

بابا نہ تھا جو چھاتی لگاتا
بھائی نہ تھا جو ہمت بندھاتا
بیٹا نہ تھا جو لاشیں اٹھاتا
مرنا بنا سو بیکس ہو آکر

پتھر جگر تھا اس شیشہ جاں کا
دیکھا اجڑنا ووں خانماں کا
مرنا اٹھایا بیٹے جواں کا
کیا کیا گیا آہ سختی اٹھا کر

نانا کی امت برگشتہ ساری
رکھتا تو کس سے امیدواری
عابد رہا ہے تس کو نزاری
گھر سونپ جاتا کس کو بلا کر

القصہ آنکھیں اس کی مندیں جب
خیموں میں محشر برپا ہوئی تب
فریاد و افغاں کرنے لگے سب
مویہ کناں تھے مو سر کے وا کر

اس حال میں آ خیمہ جلایا
اسباب ظاہر لوٹا لٹایا
اس گھر کا ماتم یوں کر اٹھایا
یک جا کیے سب میداں میں لاکر

وہ ناتوانی زین العبا کی
وہ دھوم گھر پر جور و جفا کی
بے صرفہ اشیا کیا کیا لٹا کی
تس پر ستم یہ اس کو دکھا کر

وے دست کجیاں وہ کج پلاسی
اہل حرم کی وہ بے لباسی
پھر ظالموں کی ناحق شناسی
سینے جلائے باتیں سنا کر

سمجھے نہ کچھ ہم اے چرخ جاہل
ویسے گلے کو شمشیر قاتل
بھائی کو اس کے زہر ہلاہل
بیٹے کو لایا یوں تو بندھا کر

ناموس اس کے بے سیرتوں میں
دولت سرا وہ بے دولتوں میں
وے اہل غیرت بے غیرتوں میں
کیسا رہا تو آنکھیں چھپا کر

اکبر جواں کو ہاتھوں سے کھویا
اصغر پیاسا گودی میں سویا
آنکھیں نہ اس دم تیری تھیں گویا
جس دم گیا وہ خوں میں نہا کر

نو نیزہ پانی گو چڑھ رہا تھا
لشکر تو اس کا پیاسا موا تھا
انصاف ظالم یہ آہ کیا تھا
نیزہ چڑھایا سر پھر جدا کر

خاک سیہ سے ہو یوں برابر
وہ شہ جو سب سے رتبے میں برتر
طالع جو اس کے کسریٰ و قیصر
خادم سکے ہو یا ہووے چاکر

عابد کو آزار اور ناتوانی
پھر اس کو مطلق دانہ نہ پانی
نے کوئی غم خوار نے یار جانی
کس سے کہے ٹک میری دوا کر

بھائی کو دیکھے رو رو سکینہ
جن کی نظر سے جل جائے سینہ
پھر ڈر سے ان کے جن کو تھا کینہ
رہ جائیں آنکھیں دونوں ملا کر

قاسم کی شادی ویسے رچائی
لوہو سے مہندی بھر کر لگائی
جوں شمع دلہن روتی بنائی
آخر موا وہ چھاتی جلا کر

جو پردگی تھے بے پردہ آئے
خرگاہ خیمے سارے جلائے
بیٹے بھتیجے سب وو کٹائے
کیا کیا گیا وہ آزار پا کر

دیکھا ترا ڈھب سب سے نرالا
روکش علی کا کس کو نکالا
کرلے حکومت اس کا حوالہ
لیجے ریاست اس سے چھنا کر

گھر کی علی کے ویسی خرابی
اہل ستم کی وہ کامیابی
کر فکر غافل اپنی شتابی
کس کو بگاڑا کس کو بنا کر

مدت تلک کی ہرزہ درائی
شہرت ہوئی پر ذلت اٹھائی
بس میرؔ کب تک پیری بھی آئی
اب مرثیہ ہی اکثر کہا کر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.