آ کے مجھ تک کشتیٔ مے ساقیا الٹی پھری
آ کے مجھ تک کشتیٔ مے ساقیا الٹی پھری
آج کیا ندی بہی الٹی ہوا الٹی پھری
آتے آتے لب پر آہ نارسا الٹی پھری
وہ بھی میرا ہی دبانے کو گلا الٹی پھری
مڑ کے دیکھا اس نے اور وار ابرووں کا چل گیا
اک چھری سیدھی پھری اور اک ذرا الٹی پھری
لا سکا نظارۂ رخسار روشن کی نہ تاب
جا کے آئینہ پہ چہرہ کی ضیا الٹی پھری
راست بازوں ہی کو پیسا آسماں نے رات دن
وائے قسمت جب پھری یہ آسیا الٹی پھری
جو بڑا بول ایک دن بولے تھے پیش آیا وہی
گنبد گردوں سے ٹکرا کر صدا الٹی پھری
رزق کھا کر غیر کی قسمت کا زنبور عسل
تو نے دیکھا حلق تک جا کر غذا الٹی پھری
تو ستائش گر ہے اس کا جو ہے تیرا مدح خواں
یہ تو اے مشفق ضمیر مرحبا الٹی پھری
جس پر آئی تھی طبیعت کی اسی نے کچھ نہ قدر
جنس دل مانند جنس ناروا الٹی پھری
یا تو کشی ڈوبتی تھی یا چلی ساحل سے دور
وائے ناکامی پھری بھی تو ہوا الٹی پھری
گرنے والا ہے کسی دشمن پہ کیا تیر شہاب
آسماں تک جا کے کیوں آہ رسا الٹی پھری
جی گیا میں اس کے آ جانے سے دشمن مر گیا
دیکھ کر عیسیٰ کو بالیں پر قضا الٹی پھری
مر گیا بے موت میں آخر اجل بھی دور ہے
کوچۂ قاتل کا بتلا کر پتا الٹی پھری
ہجر کی شب مجھ کو الٹی سانس لیتے دیکھ کر
ایک ہی دم میں وہاں جا کر صبا الٹی پھری
ہے مرا ویرانۂ غم نظمؔ ایسا ہولناک
موج سیل آئی تو لے کر بوریا الٹی پھری
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |