ابتدائے عسق ہے روتا ہے کیا

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھِیے ہوتا ہے کیا


قافلے میں صبح کے اِک شور ہے

یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا


سبز ہوتی ہی نہیں یے سرزمیں

تخم خواھش دِل میں تُو بوتا ہے کیا


یے نشان عشق ہیں جاتے نہیں

داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا


غیرت یوسف ہے یے وقت عزیز

میر اِس کو رایگاں کھوتا ہے کیا