ابرو نے ترے کھینچی کماں جور و جفا پر
ابرو نے ترے کھینچی کماں جور و جفا پر
قرباں کروں سو جیو ترے تیر ادا پر
یاقوت کو لاوے نہیں خاطر میں کبھی وہ
جس کی نظر اے یار پڑے تیری حنا پر
کیا خوب ترے سر پہ لگے چیرۂ سالو
کیا زیب دیوے بسمہ تری سبز قبا پر
تجھ دام میں اے آہوئے چیں بند ہے فائزؔ
ہرگز نہیں اوس طائر اندیشہ خطا پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |