ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا

ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا
by شوق قدوائی

ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا
ہم نے اٹھا کے طاق پہ اسلام رکھ دیا

نشے میں جا گرا جو میں مسجد میں سر کے بل
زاہد نے مجھ پہ سجدے کا الزام رکھ دیا

جھچکا وہ خوف کھا کے تو میں نے تڑپ کے خود
برچھی کی نوک پر دل ناکام رکھ دیا

دلچسپ نام سن کے لگے مانگنے حسیں
کس نے ذرا سے خون کا دل نام رکھ دیا

اتنی تو اس نے کی مری دل سوزیوں کی قدر
تربت پہ اک چراغ سر شام رکھ دیا

جوڑا جو بندھ گیا تو نئے دل کہاں پھنسیں
تو نے ادھر لپیٹ کے کیوں دام رکھ دیا

آنکھ اس ادا سے اس نے دکھائی کہ میں نے شوقؔ
چپکے سے اپنا مے کا بھرا جام رکھ دیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse