ابر ساں ہر چند رکھا چشم کو پر آب ہم
ابر ساں ہر چند رکھا چشم کو پر آب ہم
کر سکے پر کشت الفت کا نہیں شاداب ہم
ہجر کی آتش نے ایسا قرب دل پیدا کیا
بے قرارانہ تڑپتے اب ہیں جوں سیماب ہم
چھا گئیں زلفیں کسی مکھڑے پہ جوں آکاس پوں
خود بخود کھاتے ہیں پیچ و تاب جوں لیلاب ہم
گرد باد آسا پڑے پھرتے ہیں باغ و راغ میں
مسکن و ماویٰ کہاں رکھتے ہیں در یک باب ہم
دیکھ لینے دے تو اپنے کان کا بوندا ہمیں
پھر کہاں پاویں گے ظالم یہ در نایاب ہم
زندگی پھسلا کے لائی یاں ہزار افسوس آہ
پھنس گئے بے طرح اس دنیا کے در خلاب ہم
یاں ہے فکر معیشت واں ہے اندیشہ معاد
ہیں بہ گرداب غم دنیائے دوں غرقاب ہم
منکشف ہوتی حقیقت مرگ گر روز الست
ہرگز اے دہر از عدم کرتے نہیں پیشاب ہم
مت کر افریدیؔ کو اس مسلخ میں پابند آخرش
ذبح ہو جاویں گے تیرے ہاتھ اے قصاب ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |