اب آؤ سرود غم سنائیں
اب آؤ سرود غم سنائیں
سوتی ہوئی روح کو جگائیں
اجزائے حیات منتشر ہیں
آئین حیات کیا بنائیں
ہو جاؤں میں زندگی سے بیزار
اتنا بھی نہ آپ آزمائیں
بجھنے کو ہے شمع زندگانی
کیا آپ کو حال دل سنائیں
میں خوگر درد ہو چلا ہوں
اچھا ہے کہ آپ اب نہ آئیں
عشرت کے فریب کھانے والے
جینا ہے اگر تو غم اٹھائیں
مجبور یقین وعدہ ہوں میں
اے ہوشؔ وہ آئیں یا نہ آئیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |