اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں
اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں
نہ پوچھو جو کچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں
جو بے اختیاری یہی ہے تو قاصد
ہمیں آ کے اس کے قدم دیکھتے ہیں
گہے داغ رہتا ہے دل گا جگر خوں
ان آنکھوں سے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
اگر جان آنکھوں میں اس بن ہے تو ہم
ابھی اور بھی کوئی دم دیکھتے ہیں
لکھیں حال کیا اس کو حیرت سے ہم تو
گہے کاغذ و گہہ قلم دیکھتے ہیں
وفا پیشگی قیس تک تھی بھی کچھ کچھ
اب اس طور کے لوگ کم دیکھتے ہیں
کہاں تک بھلا روؤ گے میرؔ صاحب
اب آنکھوں کے گرد اک ورم دیکھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |