اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ

اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
by میر تقی میر

اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ

مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ

پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ

کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ

حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ

سب عقل کھوئے ہے راہ محبت
ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ

مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ

کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں
اچھا رجھایا اے مہرباں آہ

گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری
اس بے وفا سے نے رسم نے راہ

تھی خواہش دل رکھنا حمائل
گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ

اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ

ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ

جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ

ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse