اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
یک شب کہیں تم بھی آؤ صاحب
روٹھا ہوں جو تم سے میں تو مجھ کو
آ کر کے تمہیں مناؤ صاحب
بیٹھے رہو میرے سامنے تم
از بہر خدا نہ جاؤ صاحب
کچھ خوب نہیں یہ کج ادائی
ہر لحظہ نہ بھوں چڑھاؤ صاحب
رکھتے نہیں پردہ غیر سے تم
جھوٹی قسمیں نہ کھاؤ صاحب
در گزرے ہم ایسی زندگی سے
اتنا بھی نہ جی جلاؤ صاحب
یا غیر کی چاہ بھول جاؤ
یا دل سے ہمیں بھلاؤ صاحب
تم وقت کے اپنے ہو مسیحا
مردے کے تئیں جلاؤ صاحب
میاں مصحفیؔ یار آ ملے گا
اتنا بھی نہ تلملاؤ صاحب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |