اب مرنا ہے اپنے خوشی ہے جینے سے بے زاری ہے

اب مرنا ہے اپنے خوشی ہے جینے سے بے زاری ہے
by امداد علی بحر

اب مرنا ہے اپنے خوشی ہے جینے سے بے زاری ہے
عشق میں ایسے ہلکے ہوئے ہیں جان بدن کو بھاری ہے

شکوے کی چرچا ہوتی ہے چپکے ہی رہنا بہتر ہے
دل کو جلانا دل سوزی ہے یہ غم دنیا غم خواری ہے

کس کا وعدہ کون آتا ہے چین سے سوتا ہوگا وہ
رات بہت آئی ہے اے دل اب ناحق بیداری ہے

داؤ تھا اپنا جب وہ ہم سے چوپڑ سیکھنے آتے تھے
اب کچھ چال نہیں بن آتی جیت کے بازی ہاری ہے

لٹتے دیکھا غش میں دیکھا مرتے بھی دیکھا اس نے مجھے
اتنا نہ پوچھا کون ہے یہ اس شخص کو کیا بیماری ہے

ہجر ستم ہے کلفت و غم ہے کس سے کہیے حال اپنا
دن کو پڑے رہنا منہ ڈھانکے رات کو گریہ و زاری ہے

اٹھو کپڑے بدلو چلو کیا بیٹھے ہو بحرؔ اداس اداس
سیر کے دن ہیں پھول کھلے ہیں جوش پہ فصل بہاری ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse