اب کیا بتاؤں میں ترے ملنے سے کیا ملا

اب کیا بتاؤں میں ترے ملنے سے کیا ملا
by سیماب اکبرآبادی

اب کیا بتاؤں میں ترے ملنے سے کیا ملا
عرفان غم ہوا مجھے اپنا پتا ملا

جب دور تک نہ کوئی فقیر آشنا ملا
تیرا نیاز مند ترے در سے جا ملا

منزل ملی مراد ملی مدعا ملا
سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا

خود بین و خود شناس ملا خود نما ملا
انساں کے بھیس میں مجھے اکثر خدا ملا

سرگشتۂ جمال کی حیرانیاں نہ پوچھ
ہر ذرے کے حجاب میں اک آئنہ ملا

پایا تجھے حدود تعین سے ماورا
منزل سے کچھ نکل کے ترا راستہ ملا

کیوں یہ خدا کے ڈھونڈنے والے ہیں نامراد
گزرا میں جب حدود خودی سے خدا ملا

یہ ایک ہی تو نعمت انساں نواز تھی
دل مجھ کو مل گیا تو خدائی کو کیا ملا

یا زخم دل کو چھیل کے سینے سے پھینک دے
یا اعتراف کر کہ نشان وفا ملا

سیمابؔ کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر
کم بخت جب ملا ہمیں غم آشنا ملا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse