Author:سیماب اکبرآبادی
سیماب اکبرآبادی (1880 - 1951) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- اب کیا بتاؤں میں ترے ملنے سے کیا ملا
- دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
- شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں
- غم مجھے حسرت مجھے وحشت مجھے سودا مجھے
- نسیم صبح گلشن میں گلوں سے کھیلتی ہوگی
- یہ کس نے شاخ گل لا کر قریب آشیاں رکھ دی
- محفل عشق میں جب نام ترا لیتے ہیں
- آ اپنے دل میں میری تمنا لیے ہوئے
- آنکھ سے ٹپکا جو آنسو وہ ستارا ہو گیا
- اجازت دے کہ اپنی داستان غم بیاں کر لیں
- جو سالک ہے تو اپنے نفس کا عرفان پیدا کر
- جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں
- سبو پر جام پر شیشے پہ پیمانے پہ کیا گزری
- جس جگہ جمع ترے خاک نشیں ہوتے ہیں
- بقدر شوق اقرار وفا کیا
- کھو کر تری گلی میں دل بے خبر کو میں
- چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
- بقید وقت یہ مژدہ سنا رہا ہے کوئی
- شکریہ ہستی کا! لیکن تم نے یہ کیا کر دیا
- آ کہ ہستی بے لب و بے گوش ہے تیرے بغیر
- عشق خود مائل حجاب ہے آج
- میری رفعت پر جو حیراں ہے تو حیرانی نہیں
- ادراک خود آشنا نہیں ہے
- افسوس گزر گئی جوانی
- ناحق شکایت غم دنیا کرے کوئی
- بدن سے روح رخصت ہو رہی ہے
- ہستی کو مری مستئ پیمانہ بنا دے
- بڑی دلچسپیوں سے صبح شام زندگی ہوگی
- کمال علم و تحقیق مکمل کا یہ حاصل ہے
- حد ہو کوئی تو صبر ترے ہجر پر کریں
- یہ دور ترقی ہے رفعت کا زمانہ ہے
- نہ وہ فریاد کا مطلب نہ منشائے فغاں سمجھے
- مرتب ہو کے اک محشر غبار دل سے نکلے گا
- دل تیرے تغافل سے خبردار نہ ہو جائے
- تقدیر میں اضافۂ سوز وفا ہوا
- آؤ پھر گرمی دیار عشق میں پیدا کریں
- روز فراق ہر طرف اک انتشار تھا
- حسن کے دل میں جگہ پاتے ہی دیوانہ بنے
- شام فرقت انتہائے گردش ایام ہے
- انجام ہر اک شے کا بجز خاک نہیں ہے
- چھپاتا ہوں مگر چھپتا نہیں درد نہاں پھر بھی
- ہم ہیں سر تا بہ پا تمنا
- ضبط سے نا آشنا ہم صبر سے بیگانہ ہم
- جہان رنگ و بو میں مستقل تخلیق مستی ہے
- خود اٹھ کے ہاتھ میرے گریباں میں آ گئے
- رسماً ہی ان کو نالۂ دل کی خبر تو ہو
- جلوہ گاہ دل میں مرتے ہی اندھیرا ہو گیا
- وسعتیں محدود ہیں ادراک انساں کے لئے
- اب اے بے درد کیا اس کے لئے ارشاد ہوتا ہے
- جاگ اور دیکھ ذرا عالم ویراں میرا
- وہ جب رنگ پریشانی کو خلوت گیر دیکھیں گے
- زندان کائنات میں محصور کر دیا
- جو انساں باریاب پردۂ اسرار ہو جائے
- عزم فریاد! انہیں اے دل ناشاد نہیں
- جو میرے تنگنائے دل میں تجھ کو جلوہ گر دیکھا
- ختم اس طرح نزاع حق و باطل ہو جائے
- جرس ہے کاروان اہل عالم میں فغاں میری
- مجھے فکر و سر وفا ہے ہنوز
- جب تک غم الفت کا عنصر نہ ملا ہوگا
- سکوں پذیر جنون شباب ہو نہ سکا
نظم
edit- شام کی دعا
- دعا
- برسات
- جگنو اور بچہ
- برسات
- سری کرشن
- ماں کی لوری
- میری ہولی
- گوتم بدھ
- مزدور
- شری کرشن
- بلبل اور گلاب
- وطن کی لگن
Some or all works by this author are now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |