اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ
اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ
اور ہی لایا فراق یار رنگ
سرخ رو کر دے شراب آئی بہار
ہے خزاں سے زرد اے خمار رنگ
ہونٹ اودے سبز خط آنکھیں سیاہ
چہرے کا سرخ و سفید اے یار رنگ
ہم کو سارے گلشن آفاق میں
بس پسند آئے یہی دو چار رنگ
غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے
ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ
کس کی ہولی جشن نو روزی ہے آج
سرخ مے سے ساقیا دستار رنگ
ہجر جاناں میں ٹھہرتا ہی نہیں
کیا ہی میرے منہ سے ہے بیزار رنگ
کیا ہے گرگٹ آسماں کے سامنے
بدلے اک اک دم میں سو سو بار رنگ
آتی ہے او قیس لیلیٰ دشت میں
خون پا سے جلد اب پر خار رنگ
دھوپ ہے پر میرے روز ہجر کا
ہے برنگ سایۂ دیوار رنگ
ہو گیا کیوں زرد ناسخؔ کیا کہوں
ہے زمانے کا عجب اے یار رنگ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |