Author:بخش ناسخ
بخش ناسخ (1771 - 1838) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- جان ہم تجھ پہ دیا کرتے ہیں
- سب ہمارے لیے زنجیر لیے پھرتے ہیں
- سو قصوں سے بہتر ہے کہانی مرے دل کی
- ہیں اشک مری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ
- یاد آتی ہیں ہمیں جان تمہاری باتیں
- صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں
- آ گیا جب سے نظر وہ شوخ ہرجائی مجھے
- زور ہے گرمئ بازار ترے کوچے میں
- رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں
- چین دنیا میں زمیں سے تا فلک دم بھر نہیں
- تو نے مہجور کر دیا ہم کو
- دل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں
- یاروں کی ہم سے دل شکنی ہو سکے کہاں
- مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
- ہے محبت سب کو اس کے ابروئے خم دار کی
- ہے دل سوزاں میں طور اس کی تجلی گاہ کا
- وہ بیزار مجھ سے ہوا زار میں ہوں
- چوٹ دل کو جو لگے آہ رسا پیدا ہو
- مجھ سے اب صاف بھی ہو جا یوں ہی یار آپ سے آپ
- ہوئے رونے سے مرے دیدۂ بے دار سفید
- ہے تصور مجھے ہر دم تری یکتائی کا
- اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ
- ہماری کیف سزاوار احتساب نہیں
- ہائے لایا نہ کوئی قاصد دلبر کاغذ
- گو یہ غم ہے کہ وہ حبیب نہیں
- جب سے کہ بتوں سے آشنا ہوں
- یوں مجھے آپ سے اب کرتی ہے تقدیر جدا
- اپنے ابرو آئنے میں دیکھ کر بسمل ہوا
- لیتے لیتے کروٹیں تجھ بن جو گھبراتا ہوں میں
- کون سا تن ہے کہ مثل روح اس میں تو نہیں
- رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مہ پارہ تھا
- مزہ وصال کا کیا گر فراق یار نہ ہو
- یہ جسم زار ہے یوں پیرہن کے پردے میں
- مے سے روشن رہے ایاغ اپنا
- جی لیتی ہے وہ زلف سیہ فام ہمارا
- قامت یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
- کرتی ہے مجھے قتل مرے یار کی رفتار
- مجھ کو اب ساقیٔ گلفام سے کچھ کام نہیں
- مجھ کو فرقت کی اسیری سے رہائی ہوتی
- صاف قاصد کو واں جواب ملا
- سب کی سب کیا ہیں شب قدر ہماری راتیں
- وہ روئے کتابی تو ہے قرآن ہمارا
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |