اتش حسن بھری ہے تیرے رخساروں میں
اتش حسن بھری ہے تیرے رخساروں میں
کون منہ مارے دہکتے ہوئے انگاروں میں
طالب دید کو جب دید کا موقع نہ ملا
لاکھوں سوراخ کئے یار کی دیواروں میں
آج کیا تو نے عیادت کا کیا ہے وعدہ
کھلبلی آج مچی ہے تیرے بیماروں میں
سینکڑوں بوتلیں اور بیسیوں ساغر ٹوٹے
ہاتھا پائی جو ذرا ہو گئی مے خواروں میں
غیر سے آج ہوئی نوچا کھسوٹی تیری
داغ جو نیلے پڑے ہیں تیرے رخساروں میں
باد ابرو سے شب ہجر کو کاٹا ہم نے
یہ بھی چلتا ہوا ہتھیار ہے ہتھیاروں میں
کہیں ہو جائے اسے بردہ فروشی میں سزا
غیر اس بت کو لئے پھرتا ہے بازاروں میں
ہم کو بھی حسن ملاحت کا مزہ چکھوا دو
ہم بھی ہیں آپ کے مدت سے طلب گاروں میں
بوم صاحب کا عجب رنگ نرالا دیکھا
یار یاروں میں ہے اغیار ہے اغیاروں میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |