اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی
اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی
تم تو ایسے ہو کہ بس توبہ بھلی
رسم عشق غیر اور میں یہ بھی خوب
ایسی کہتے ہو کہ بس توبہ بھلی
میری مے نوشی پہ ساقی کہہ اٹھا
اتنی پیتے ہو کہ بس توبہ بھلی
وقت آخر اور یہ قول وفا
دم وہ دیتے ہو کہ بس توبہ بھلی
غیر کی بات اپنے اوپر لے گئے
ایسی سمجھے ہو کہ بس توبہ بھلی
میں بھی ایسا ہوں کہ خالق کی پناہ
تم بھی ایسے ہو کہ بس توبہ بھلی
کہتے ہیں مضطرؔ وہ مجھ کو دیکھ کر
یوں تڑپتے ہو کہ بس توبہ بھلی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |