اجازت دے کہ اپنی داستان غم بیاں کر لیں
اجازت دے کہ اپنی داستان غم بیاں کر لیں
ترے احساس اور اپنی زباں کا امتحاں کر لیں
حیات جاوداں بھی عشق میں برباد کر لیں گے
متاع ہستی فانی تو پہلے رائیگاں کر لیں
یہ سازش کر رہے ہیں چند تنکے آشیانے کے
کہ بجلی کو کسی صورت اسیر آشیاں کر لیں
شب غم اے تصور ان کو مجبور تبسم کر
مرتب اس اجالے میں ہم اپنی داستاں کر لیں
ٹھکانا ہو کہاں سیمابؔ پھر ناز آفرینی کا
اگر ہم اپنے دل کو بے نیاز دو جہاں کر لیں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |