احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر

احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر
by نظم طباطبائی

احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر
رستہ بھی چل تو سبزۂ بیگانہ چھوڑ کر

مرنے کے بعد پھر نہیں کوئی شریک حال
جاتا ہے شمع کشتہ کو پروانہ چھوڑ کر

ہونٹوں پہ آج تک ہیں شب عیش کے مزے
ساقی کا لب لیا لب پیمانہ چھوڑ کر

افعی نہیں کھلی ہوئی زلفوں کا عکس ہے
جاتے کہاں ہو آئینہ و شانہ چھوڑ کر

طول امل پہ دل نہ لگانا کہ اہل بزم
جائیں گے ناتمام یہ افسانہ چھوڑ کر

لبریز جام عمر ہوا آ گئی اجل
لو اٹھ گئے بھرا ہوا پیمانہ چھوڑ کر

اس پیر زال دہر کی ہم ٹھوکروں میں ہیں
جب سے گئی ہے ہمت مردانہ چھوڑ کر

پہروں ہمارا آپ میں آنا محال ہے
کوسوں نکل گیا دل دیوانہ چھوڑ کر

اترا جو شیشہ طاق سے زاہد کا ہے یہ حال
کرتا ہے رقص سجدۂ شکرانہ چھوڑ کر

یہ سمعۂ و ریا تو نشانی ہے کفر کی
زنار باندھ سبحۂ صد دانہ چھوڑ کر

رندان مے کدہ بھی ہیں اے خضر منتظر
بستی میں آئیے کبھی ویرانہ چھوڑ کر

احسان سر پہ لغزش مستانہ کا ہوا
ہم دو قدم نہ جا سکے مے خانہ چھوڑ کر

وادی بہت مہیب ہے بیم و امید کا
دیکھیں گے شیر پر دل دیوانہ چھوڑ کر

رو رو کے کر رہی ہے صراحی وداع اسے
جاتا ہے دور دور جو پیمانہ چھوڑ کر

توبہ تو کی ہے نظمؔ بنا ہوگی کس طرح
کیوں کر جیو گے مشرب رندانہ چھوڑ کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse