ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں
ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں
غرض ہم اس کی صورت سو ہنر سے دیکھ لیتے ہیں
کیا ہے بخت نے جس دن سے ہم کو اس کا ہم سایہ
ہم اس رشک پری کو اپنے گھر سے دیکھ لیتے ہیں
جو ہو جاتے ہیں دیوانے ترے اتنے نقابوں پر
خدا جانے کہ وہ تجھ کو کدھر سے دیکھ لیتے ہیں
ہمیں گریہ سے وہ فرصت کہاں جو خال و خط دیکھیں
مگر نقشہ ترا اس چشم تر سے دیکھ لیتے ہیں
ہمارے دیکھنے سے کیوں خفا ہوتا ہے اے ظالم
ترا لیتے ہیں کیا ٹک اک نظر سے دیکھ لیتے ہیں
ہمیں اس کو میں رہنے کا نہیں کچھ اور تو حاصل
پر اتنا ہے کہ گاہے چاک در سے دیکھ لیتے ہیں
لگیں ہیں دیکھنے جب مصحفیؔ ہم اس کے کوچے میں
ٹک اک پھر کر بھی رسوائی کے ڈر سے دیکھ لیتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |