اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر آری اس سے ہوتی ہے۔ وہی اس کے محافظ و مختار ہیں۔ انہیں نے عوارض اور ضروریات کے مطابق اس کو پنے ڈھب کا بنایا ہے۔ ہمیشہ ہر کہیں ایسا ہی ہوتا ہے۔ زبان کا ہر جز و ترکیبی مسلسل تغیرات کا ماحصل ہے، جو اہالیان زبان کے ارادے اور رغبت سے عمل پذیر ہوا۔ یہ لوگ تاریخی عوارض، انسانی فطرت اورداعیے کے تہیج سے متاثر تھے جن کے نشانات ہماری نظر میں صاف نمایاں ہیں، اور یہی زبان کو سائنٹفک تحقیق و تفحص کا شایاں موضوع قرار دیتے ہیں۔ انہیں امتیازی اعتبارات سے مطالعہ زبان کی نوعیت کا، مثل تاریخ و اخلاقیات کے تعین ہوتا ہے۔ زبان انسانی تہذیب اور نوع انسان کی تاریخ کا ایک شعبہ ہے۔ زبان متعدد علوم سے استعانت کرتی ہے لیکن باوجود اس کے انسان کا ذہن افکار کے اظہار کی تلاش اور چھان بین میں زبان کی ترقی و دخل معضلات اور روابط و نتائج کے درمیان ایک قسم کی حد وسطیٰ ہے۔ تاریخ کی مانند زبان کی بھی تحلیل عامیہ مثل کیمیا اور طبعیات کے ایک معمول میں ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معمل میں اسی شے کا دخل ممکن ہے جو امر واقعہ ہو اور قانون قدرت کے کلیہ کے تحت جگہ پا سکے۔ زبان امر واقعہ تو ہے مگر بہ تقاضائے نوعیت ہمیشہ معرض تغیر میں ہے اور یہی مابہ الامتیاز لسانیات کو دوسرے علوم سے حاصل ہے۔لسانیات کے باب میں تحلیل و تجزیے کی وہ اصول عہدہ بر آ نہیں ہو سکتے جو طبیعات ومادیات پر حاوی ہیں۔ زبان سالمات یا سالبات کے قدغن سے مبرا ہے۔ ہاں علما کوشش میں ہیں کہ زبان کو سائنس۔۔۔ کہئے علم نفسیات و صوتیات کے تحت لائیں۔ اس ضمن میں یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ اول الذکر جیسا کہ اس وقت ہے، ضرور یہ شان رکھتا ہے کہ لسانیاتی مسائل پر اس کے خاص نظریوں کی روشنی میں فکر کی جائے۔ یہ امر متقدمین اردو کے ذہن نشین تھا۔ اہالیان اردو نے زبان کی طرف سے علمی تخیل کو کبھی طلاق نہیں دی۔افعال کے صیغوں کی تنظیم، سائنٹفک اصول پر صفت و موصوف اور مضاف، مضاف الیہ کی تقدیم و تاخیر کا آئین، حروف جار کی معنوی حیثیت کی تعیین، اسلوب اور زبان کی داخلی استعداد کے مطابق مرکبات کی توضیع، تارید کے موقعوں پر تصرف کا مستحسن استعمال، محاورے کی سلاست اور منطقی تدوین، ضرب الامثال کی عمومیت، کلیت اور قوت تالیف، اور تعقید و اضمار قبل الذکر کی معائب انشا میں شمولیت وغیرہ وہ امر ہیں جو عہد قدیم و متوسط میں اہالیان اردو کے حسن شعور اور سلیقہ تنظیم کی ہزار زبان سے داد دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض امور جستہ جستہ آپ کی توجہ کے لئے پیش کئے جائیں گے۔خدا معلوم وہ دن اردو زبان کے حق میں کتنا اہم اور نتیجہ خیز تھا جب حضرت شاہ سعدا للہ گلشن نے شمس الدین ولی کو ہدایت کی، ’’ایں ہمہ مضامین فارسی کہ پیکار افتادہ اندوریختہ بہ کار ببر۔ از تو کہ محاسبہ خواہد گرفت۔‘‘ترجمہ، ’’یہ اتنے سارے فارسی کے مضمون جو بیکار پڑے ہوئے ہیں، ان کو اپنے ریختے میں میں استعمال کر، کون تجھ سے جائزہ لے گا۔‘‘استاد کی ہدایت کی تعمیل میں وہ مضمون تو شاگرد رشید نے اٹھا لیے، جن کی بدولت اس کے کلام کو شہرت دوام کا تمغہ نصیب ہوا، مگر زبان اس نے شاہ جہاں آباد کی اردوئے معلی ہی رکھی۔ شاہ صاحب کا عندیہ یہ تھاکہ ولی دکنیت کو ترک کر کے اردو زبان کو ایران کی نظر گفتاری، تشبیہ و استعارہ وغیرہ محاسن کلام یا اصناف شعری سے متمول کرے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ تین صدی بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ اس مفید مشورے کے الٹے معنی لئے جائیں گے اور چند حروف جار اور امدادی افعال وغیرہ کے سوا اردو کلمے کلام سے خارج کر دیے جائیں گے۔اردو نے قدیم اور متوسط زبانوں میں کیا لسانی ترقی کی، اس اعتبار سے اب اس کی کیا حالت ہے اس کا مجمل تذکرہ آج کیا جائے گا۔ تحقیق اس امر کی منظور ہے کہ عہد حاضر میں اردو لسانیاتی اعتبار سے کس درجہ کو پہنچی ہے اور یہ کہ وہ حالت اطمینان کے قابل ہے یا نہیں؟ یہ تحقیق نہ صرف اس یا اس جماعت بلکہ ہر شخص کا فرض ہے جو اردو کو ا پنی زبان کہنے کا دعویٰ کرتا ہے۔زبان کے ترکیبی فعلوں میں سے یہاں صرف دو کا ذکر کیا جائے گا یعنی اختراعی یا ابداعی استعداد اور اخذ کی قابلیت۔ یہی دو علامتیں ایک زبان کے سر جیون ہونے کی ہے۔ یہ قابلیت اور استعداد جب کسی زبان میں زائل ہو جاتی ہے تو اس کی ترقی کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔ اور اسباب بھی ہیں جو زبانوں کی ترقی بلکہ زندگی کے مزاحم ہوتے ہیں، جیسے راوج و پسند عام کو قطعاً نظر انداز کر دینا اور زبان سے متعلق ہر امر کو سائنٹفک تنقیح قرار دے کر قاعدے کے قیود و تعینات میں جکڑ بند کر دینا جیسا کہ سنسکرت کے ساتھ ویاکرنیوں نے کیا۔میں مانتا ہوں کہ قاعدے اورآئین کی ضرورت مسلم ہے لیکن اس کا استبداد اور باون تولے پاورتی جیسے یقینات عامہ کو حکم ناطق زبان کی شبابیات اور اپج کا دشمن ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اختراع بغیر حسن شعور اور ذوق سلیم کے اور اخذ بغیر تصرف حسنہ کے ممکن نہیں۔ اردو کی موجودہ حالت دیکھ کر شبہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ بے چاری اس مقام کے قریب تو نہیں پہنچ رہی ہے جس کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اگر ہم انانیت اور بر خود غلط ہونے سے دور ہٹ کر نظر غائر سے کام لیں تو خوف ہے کہ شبہ یقین کے قریب پہنچ جائے گا۔ لسانیات اور ادبیات یا کہئے کہ زبان اور لٹریچر میں جو امتیاز ہے اس کی تصریح کی ضرورت نہیں۔مختصر یہ کہ یہ امر تمام اردو دنیا کا دل بڑھانے اور امید دلانے والا ہے کہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کے دارالترجمہ کا تتمہ نہیں یعنی کسی خط تواناں کا ورق ثانی نہیں بلکہ زبان کی ترقی و اصلاح بھی اس کے مقاصد میں ہیں۔ آج کا موضوع محض اس غرض سے انتخاب کیا گیا کہ جامعہ کے معزز اراکین اور اصحاب حل و عقد اور دوسرے ادیب اور نکتہ رس اصحاب جو اس صحبت میں تشریف رکھتے ہیں، ان کی توجہ اس طرف منعطف کی جائے، یعنی اردو کی لسانیاتی حالت کی جانب، تاکہ وہ بزرگ اس کیفیت وکمیت کا موازنہ کریں۔ اس لحاظ سے شاید ہندی بھی اسی ضغطے میں ہے جس میں اردو ہے لیکن میرا روئے سخن اردو کی طرف ہے۔عرض کیا گیا ہے کہ جب کوئی زبان اختراع و اخذ کے بارے میں قوت فعل سے عاری ہو جاتی ہے تو ارتقا کی شاہراہ سے بھٹک جاتی ہے۔ اگر ابھی سے روک تھام نہ کی گئی تو خوف ہے کہ اب سے دور ی موذی مرض کہیں لا علاج نہ بن جائے۔ پہلے اس کا جائزہ لیا جائے گا کہ اردو کی لسانی ترقی سے متعلق متقدمین اور متوسطین نے کیا کچھ کیا اور پھر بتایا جائے گا کہ ان کے متعاقبین اور عہد حاضر کے کارنامے کیا ہیں لیکن یہ سب امور ایک واحد لکچر میں احاطہ نہیں ہو سکتے۔ جو کچھ کہا جائے گا بالا جمال ہوگا۔متقدمین کرام کو جس وقت یہ چیٹک لگی کہ اردو یا ریختہ کو منظم کریں، تو ان کے سامنے کوئی مکمل دیسی ہندوستانی نمونہ موجود نہ تھا۔ اس وقت کی ہندی یا برج بھاشا سور سینی یا پراکرت کو آج کل کے لسانیاتی معیار اور اصول کے متبع مکمل نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ اگر کسی میں اعلیٰ نظم موجود تھی تو نثر مفقود اور کسی میں نثر تھی تو نظم مہتم بالشان ندارد تھی۔ اس لئے تحقیق اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ’’ہند ایرانی‘‘ مسالے سے جو بت تیار ہوا تھا اس کی پوشاک توہندوستانی رہی لیکن اس کے لے زیور کچھ ہندستان اوراور زیادہ تر ایران کا استعمال کیا گیا۔ یہ آپ جانتے ہیں، زیور کس قدر پیارا اور سہانا ہوتا ہے۔ اردو زبان کی تدوین و تزئین کے بہت سے اصول اور طریقے بتائے گئے ہیں لیکن جو گر سید انشا مرحوم نے دریافت کیا، فلسفہ زبان کا سر تاج ہے اور رہے گا۔ جب تک کہ اردو زندہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں،’’مخفی نماند کہ ہر لفظے کہ در اردو مشہور شد، عربی باشد یا فارسی یا ترکی یا سریانی یا پنجابی یا پوربی، از روے اصل غلط باشد یا صحیح، آن لفظ لفظ اردو است۔ اگر موافق اصل مستعمل است ہم صحیح، و گر خلاف اصل است ہم صحیح۔ صحت و غلطی آن موقف بر استعمال پذیرفتن در اردو است۔ زیرا کہ ہر چہ خلاف اردو است، غلط است، گو در اصل صحیح باشد و ہر چرہ موافق اردوست، صحیح باشد، گودر اصل صحت نہ داشتہ باشد۔‘‘ترجمہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر لفظ جو اردو میں مشہور ہو گیا، اردو ہو گیا خواہ وہ عربی یا فارسی ترکی ہو یا سریانی، پنجابی ہویا پوربی، از روے اصل غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے مطابق ہے تو بھی صحیح ہے اور اگر اصل کے خلاف مستعمل ہے تو بھی صحیح ہے۔ اس کی صحت اور غلطی اردو میں اس کے استعمال میں آنے پر منحصر ہے کیونکہ جو اردو کے خلاف ہے، غلط ہے خواہ وہ اصل زبا ن میں صحیح ہو۔ اور جو اردو کے موافق ہے صحیح ہے خواہ وہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو۔‘‘سید مبرور نے ان چند فقروں میں تہذیب لسان کے ضابطے کالب لباب پیش کر دیا ہے۔ اسی اصول پر اردو بنی اور پروان چڑھی۔ اسلاف کا دستور العمل یہی تھا۔ یہ تصرفات اردو جن کو میں ایک لفظ ’’تارید‘‘ سے تعبیر کروں گا، تفریس و تعریب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور رکھیں گے جب تک اردو زندہ اور چالو زبان ہے کیونکہ اول تو وہ عربی یا سنسکرت کی طرح صرف زبان نہیں اور دوسرے یہ کہ اس کی بنیاد ہی کاٹ چھانٹ اور تصرف ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ آیا زبان کی ساخت کا یہ گر اردو والوں نے ہندی سے سیکھا جس کا بہت امور میں سنسکرت سے انحراف بدیہی ہے۔بہرحال کامل تحقیق اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دسویں صدی کے قریب سو ر سینی اپ بھرنش سے مغربی ہندی نکلی جس کے میل سے دو آبہ گنجم 1 میں ایک نئی زبان پیدا ہوئی۔ اسے مستشرق اور لسان ہندوستانی کہتے ہیں۔ پھر اس کی دو شاخیں ہو گئیں جس کی وجہ اول اول رسم الخط تھی۔ یہ دو شاخیں آپ کی ہندی اور اردو ہیں۔ زبان کی تاریخی روداد کے اس مجمل حوالے سے میرا مطلب یہ ظاہر کر دینا ہے کہ جو دعویٰ ہم اردو کے بارے میں کرتے ہیں، بہت ممکن بلکہ اغلب ہے کہ اس میں ہندی والوں کا بھی حصہ شریک ہے، کیونکہ یہ امر ثبوت اور استدلال کا محتاج نہیں کہ جب تک ہندوستانی دو شاخوں میں منقسم ہو کر جداگانہ ضبط تحریر میں نہ آئی، سب برابر کام کرتے رہے اور اسے بناتے رہے۔اس سلسلہ میں پہلے اسموں کو لیا جائے گا۔ اردو دانوں نے نہ صرف یہ کیا کہ الخالُق کو الخالَق (پوشاک کی چیز جیسے اچکن) جا جُم کو جاجَم اور موسِم کو موسَم بنا لیا، بلکہ بہت سے عربی الفاظ کی جنسیت بھی بدل دی۔ فارسی خوش نصیب تھی کہ اس نے یہ بکھیڑا پالا ہی نہیں۔ مثلا شمس جو عربی میں مؤنث تھا اردو میں مذکر ٹھہرا۔ آپ کہیں گے کہ یہ مداخلت بیجا کیوں، یہ تو سخت لسانی بدعت ہے؟ میں کہتا ہوں اس لغت کے لئے ان کے پاس صرف دو متبادل طریق عمل تھے۔ یا تو وہ اس لفظ کو لیتے ہی نہیں اور لیتے تو اس کے مترادف لغت ہندی کی جنسیت کا اتباع لابد تھا، جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا یعنی سورج۔یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ غیر زبان کے اسموں کی تذکیر و تانیث سے متعلق ان کا نظریہ یہ تھا کہ ان کو دیسی مرادف اسموں کی جنس کا متبع کرتے تھے۔ مدتوں اہل اردو اسی دستور پر چلتے رہے اور جو محتاط ہیں اور ذوق سلیم رکھتے ہیں، اب بھی اس پر عامل ہیں۔ انہوں نے مُندیل کو مَندیل، جادّہ (بروزن مادّہ) کو جادہ، تُوَشک (بجز فوقانی سب حرف ساکن) کو توشک اور بغچہ (غین معجمہ کو) بقچہ کر دیا، قِس علی ہذا۔میں جلدی سے یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان اور بیسیوں دوسرے الفاظ میں تصرف کی معقولیت اور وجاہت کے حق میں زبر دست دلائل پیش ہو سکتے ہیں، جس کا یہ موقع نہیں۔ تصرف کا عمل الفاظ فارسی و عربی کی صوتی حیثیت یعنی تلفظ اور جنسیت تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ اصل معنوں میں بھی تصرف کئے گئے۔ تحفہ سوغات کے معنی رکھتا تھا لیکن وہ ا چھے، سجل اور تازے کے معنے میں بھی استعمال ہونے لگا۔وہ زمانہ بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ تھا کہ با ت بات میں ملی نچ نکالی جاتی۔ ان لوگوں کے نزدیک ہندو مسلمان اور ان کے مذہب یا مذہبی روایتیں اور اصطلاحیں یکساں تھیں۔ انہوں نے اپنی زبان کو بنانے اور سنوارنے کا عزم کیا تھا، شدھی یا تبلیغ کا نہیں۔ ان کا قول و فعل تھا، عیسیٰ بدین خود و موسیٰ بدین خود۔ خیر قرآن کا جامہ پہننا اور گنگا اٹھانا تو رہا ایک طرف، انہوں نے صلوۃ جیسے لغت کے معنیٰ میں جو جناب رسالت مآبؐ کی مقدس ذات سے مخصوص ہو چکا تھا، تصرف کیا۔ اگر چہ اتنا پاس ادب ضرور رہا کہ اسے محض صیغہ جمع تک محدود رکھا۔ میر تقی میر مغفور فرماتے ہیں؛پڑھتا تھا میں تو سبجہ لئے ہاتھ میں درودصلواتیں مجھ کو آکے وہ ناحق سنا گیاانہوں نے گنگا کو الٹا کر پھر شوجی کی جٹاؤں میں پہنچا دیا۔ منشی اسیر کا شعر ہے،ہم تو پیاسے رہے، مے غیر کو دی، پیر مغاںالٹی اس شہر میں بہتی ہوئی گنگا دیکھیاصل میں تھا ’’لا الی الذین و لا الی الذین‘‘، یعنی نہ ان میں سے نہ ان میں سے۔ اس سے بنا لیا اِللذی نہ اُللذی بمعنی مذبذب، ڈانوا ڈول، چنانچہ سید رضی نے کہا،نہ تو عاشقوں ہی میں جا ملی، نہ وہ فاسقوں سے بنی رہیتری وہ مثل ہے اب اے رضی کہ اِللذی نہ اُللذیکلمہ مقدس لن ترانی کی شان ورود تشریح کی محتاج نہیں۔ اس کے معنی قرار پائے خود ستائی، انانیت، شیخی وغیرہ۔ شیخ ناسخ نے فرمایا۔لن ترانی سنتے ہیں، دیدار سے محروم ہیںیعنی اس حیرت کدہ میں کور ہیں ہم کر نہیںٹھاکروں کی پوجا میں سب سے پہلے گنیش کی پوجا کی جاتی ہے، مگر وہ بھی تصرف و اختراع کی زد سے نہ بچ سکے ’’گوبر گنیش‘‘ کا مرکب آپ کے روز مرہ اور لغات میں موجود ہے۔سامعین کرام! اور بگلا بھگت اور ولی کھنگر کی طرف توجہ فرمایئے، کیا برابر کی جوڑ ہے! شوق قدوائی مرحوم نے فرمایا،کھویا انہیں شوق کیمیا نے اے شوقلوٹا انہیں جھوٹے فقرا نے اے شوقکاہل نہیں ایک اور ولی کھنگر لاکھبس دور کے ڈھول ہیں سہانے اے شوقرام کہانی ہندوؤں کے ہاں رام چندر جی کی کتھا کو کہتے تھے، اردو دانوں نے اس کے معنی میں تصرف کر کے اس طرح استعمال کیا، جرأت مرحوم کا ارشاد ملاحظہ ہو۔درد دل اس بت بیدرد سے کہئے تو کہےجا کے یہ ر ام کہانی توسنا اور کہیںکھٹ سنسکرت میں چھ کا نام ہے۔ کھٹراگ کے لغوی و اصطلاحی معنی ہیں، چھ راگ۔ یہ مرکب ان چھ مول راگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جن سے بہت سی راگنیاں نکلی ہیں۔ مگر اردو میں اس کے معنی کی لے اور سر کیا، ٹھاٹھ ہی بدل دیا۔ صبا کا شعر ہے،پڑے ہیں عشق کے کھٹراگ ہیں ہم اے مطربکسے خیال ہے دھرپد، ترانے تروٹ کامرکب اسموں کے سلسلے میں ایک اور لفظ کا ذکر کیا جائے گا، وہ ہے ’کٹ بدیا۔‘ اس کے معنی آپ جانتے ہیں، مار پیٹ، زدو کوب، یہ وہ بدیا ہے جو بے سکھائے پڑھائے آتی ہے۔مبادا آپ سنتے سنتے اکتا جائیں اس لئے اب اس سلسلے کو ختم کرتا ہوں۔ میں نے کئی سو لفظوں کا ایک نقشہ مرتب کیا ہے جن میں اسم بھی ہیں اور افعال و ضمائر وغیرہ بھی۔ اس کے چھ خانے رکھے ہیں (1) اردو (2) ہندی (3) پنجابی (4) اپ بھرنش (5) پراکرت اور (6) سنسکرت۔ اس موقع پر سارا نقشہ تو پیش کرنا تو طول عمل ہے، نمونے کے طور پر پانچ چھ لفظ عرض کئے جائیں گے جو اردو الوں کے اخذ و تصرف کے سلیقے کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں۔اردو ہند یپنجابی اپ بھرنش پراکرت سنسکرتچھانو چھئیاں چھاں چھاؤ چھا آ چھایابیکا بانکا و ینگا و نگکؤ و کّو و کرکڈھیٹ ڈھیٹھ ڈھیٹھ ڈھٹھو ڈھٹھو دھرشٹسچ سانچسچّ سچّ سُچمسیتمکویل کویَل کولکویل کویلا کوکلادکھا دیکھا ڈٹھا ڈٹھو ڈٹّھ دِرشٹحفظ مراتب کی نظر اور ادبی رواداری ملاحظہ فرمائیے۔ ایک لفظ کو مفرد حالت میں تو اپنی ڈھب کابنا لیا مگر مرکب حالت میں اس کی اصلی ہئیت کو ہاتھ نہ لگایا۔ مثلاً سانچ کو بدل کر سچ کر لیا لیکن ’’سانچ کو آنچ نہیں‘‘ اس میں سانچ ہی رہنے دیا۔ اسی طرح ہست سے بتدریج ’’ہتھ‘‘ بنا، جب ہمارے ہتھے چڑھا، تو ہم نے اس کو ہاتھ بنالیا لیکن مرکبات میں اس کی وہی سور سینی شکل قائم رکھی۔ جیسے ہتھ، چھٹ، ہتھ پھیری، ہتھ پھول، ہتھ کنڈا۔ پھلم سے پھول بنا، مگر مرکب پھلجھڑی اور پھلکاری میں اصل شکل قائم رکھی۔ اسی طرح سو وسینی ’’نک‘‘ میں ایزاد کر کے ’’ناک‘‘ تو بنا لیا لیکن نکٹوڑا، نکٹا میں اس کی ہیٔت کذائی قائم رکھی۔قدما اور متوسطین کہ نکتہ رسی اور معنی آفرینی کی کہاں تک داد دی جائے! ایک معمولی لفظ ’’خوف‘‘ کو لیجئے، اس کے کتنے مترادف الفاظ وضع یا اختراع کئے یا تصرف سے کام میں لائے اور ان کو وہ معنی پہنائے کہ نفسیات کا ماہر دنگ رہ جاتا ہے، ملاحظہ ہو۔دبدا، جھجک، بھچک۔ سئنسا، کھٹکا۔ دھڑکا، سہم، سناٹا، دھچکا، ڈر۔ سب کلمے خوف کے مختلف درجوں کو واضح کرتے ہیں اور پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہماری زبان کا دامن کتنا فراخ ہے۔ مرکبات کو دیکھئے۔ ’مرتکا‘ سے ادل بدل ہوتے ہوئے ماٹی بنا۔ اس بھاشا کی ماٹی کو انہوں نے مٹی بنا لیا اور اس سے نہایت اہم مرکب توصیفی تیار کیا یعنی مٹیالا۔ میرے خیال میں یہ مرکب سنسکرت کی سندھی کے قاعدے پر بنا ہے۔ بے محل نہ ہوگا اگر گریمر کی اس اصطلاح سندھی کی نسبت یہاں دو لفظ کہہ دیے جائیں۔ جب ایک لفظ ایسے حرف پر ختم ہو کہ اس کی آواز متعاقب لفظ کے اول حرف کی آواز کے ساتھ آسانی سے پیدا نہ کی جا سکے، تو ان حروف میں سے ایک حرف کو کبھی کسی کبھی کسی حرف سے بدل دیتے ہیں۔ یا کہیے کہ ایک حرف کو حذف کر کے اس کی جگہ ایک نیا حرف ایزاد کر دیتے ہیں۔سنسکرت کا اصلی فقرہ تھا، ’’ودھی آنے۔‘‘ چونکہ ای اور آ دونوں کی آواز یکے بعد دیگرے آسانی سے ادا نہیں ہو سکتی تھی اس واسطے اس کا ’’ودھیا نے‘‘ بن گیا۔ اسی طرح، ’’روی آتی تیکشنو بھوتی‘‘ میں اتی کے الف کو ر سے بدلا اور ’’روی رتی‘‘ بنا دیا۔ آپ نے دیکھا اب جس کو ہمارے ہاں تنافر حرف کہتے ہیں، رفع ہو گیا۔ سنسکرت میں یہ قاعدہ یعنی سندھی کا قاعدہ مہتم بالشان حیثیت رکھتا ہے۔ میری تحقیقات میں اکثر انڈو یوروپین یعنی آریائی زبانیں اس پر کم و بیش عمل پیرا ہیں۔فارسی کو لیجئے۔ بندہ اور مژہ کی جمع الف نون سے بنانی تھی۔ دیکھا کہ ہائے مختفی کے ساتھ الف کا میل نہیں، چنانچہ بندہ ان کے بدلے بندگان اور مژہ ان کے بدلے مژگان بنایا یعنی ہائے مختفی کو گ سے بدل دیا۔ یہ دقت اور سندھی کے اصول کی پابندی کی ضروت وہیں آ کر پڑتی ہے جہاں دونوں طرف حرف علت ہوں، یا ایک طرف ہائے مختفی اور دوسری طرف حرف علت یا وسرگ۔ایک خاص فقرے کے تلفظ پر آرنلڈ بنٹ کا غصہ سراسر بے محل تھا جب اس نے اسٹ انڈ کے ایکٹروں کی زبان سے سنا، سوڈار ینڈ ملک۔وہ سمجھا کہ ’’سوڈا اینڈ ملک‘‘ کی مٹی خراب کی ہے جاہل ایکٹروں نے۔ مگر مغربی لندن کے جاہل ایکٹر نا دانستہ پاننی کا اتباع کر رہے تھے، جس نے ’’روی اتی‘‘ کو ’’روی رتی‘‘ بنا دیا۔ وضع کرنے والے نے کیوں نہ سوچا کہ دو الف پیہم آواز نہیں دے سکیں گے۔ لوگوں کو اس ترکیب کی غیر فطری ادا کا احساس ہوا اور اب وہ اور تو کچھ نہ کر سکے ’’ملک اینڈ سوڈا‘‘ اور ’’وہسکی اینڈ سوڈا‘‘ بولنے لگے۔اس ضمن میں ایک مثال انگریزی زبان سے اور پیش کی جائے گی۔ یہاں اسی سندھی کے اصول کو قاعدے کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ انگریزی گریمر کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ جو لفظ حرف علت سے شروع ہو، اس کے پہلے اے A بمعنی ایک نہیں لاتے بلکہ این An لاتے ہیں۔ اے بک، تو ٹھیک لیکن اے ایکٹ غلط، کیونکہ دو الف کی آواز ایک ساتھ نکالنا آلات نطق کے بس کا روگ نہ تھا اس لئے N یا نون بڑھا کر A کا این بنانا پڑا۔عجمی جب عربی زبان کے قاعدے باندھنے بیٹھے، تو ان کا ذہن سندھی کے اس اصول سے متاثر تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے فصاحت سے متعلق تنافر حروف پر بہت زور دیا لیکن چونکہ عربی ان کی مادری زبان نہ تھی اور سامی حروف کی صحیح آواز پیدا کرنے سے ان کے آلات نطق عاری تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں تنافر حروف نہ تھا، وہاں بھی انگلی رکھ گئے۔ سب جانتے ہیں کہ ہائے ہوّز اور حائے حطی کی آوازیں جدا جدا ہیں۔ لیکن غیر اہل زبان اپنے منہ سے اس امتیاز کو ظاہر نہیں کر سکتا۔ اسی طرح بعض شاعروں نے جن کے آلات نطق الف اور عین کی صحیح سامی آواز پیدا کرنے میں قاصر تھے، الف کی طرح عین کو بھی گرا دیا ہے۔مرکب افعال ایسے ایسے مرتب اور وضع کئے کہ اس بارے میں شاید کوئی زبان اردو کا مقابلہ کر سکتی ہو۔ مثال کے لئے ایک معمولی مصدر لکھنا کو لیجئے۔ ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے،(1) خط لکھو۔(2) خط لکھ دو۔(3) خط لکھ ڈالو۔(4) خط لکھ چکو۔آپ ان چار جملوں کے معنی جانتے ہیں۔ ترکیب نے جو زور اور معنوی امتیاز فعل کو بخشا ہے، اس کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ اردو کی لسانیاتی وقعت جو اسے اسلاف نے عطا کی، ایک اور واقعہ سے ثابت ہے۔ علما کے اس مجمع کے سامنے اس توجیہ کی ضرورت نہیں کہ ہمارا مجموعہ تعزیرات ہند شاید جسٹی نین کے ضابطہ قانون کے سوا، سیاسی قوانین میں سب سے مکمل بلکہ اکمل تسلیم کیا جاتا ہے۔ یورپ کے کئی ملکوں میں اس مجموعہ کو آگے رکھ کر ضابطے مدون کئے گئے۔ باوجود اس کے یہ مجموعہ بھی اردو کا مرہون منت ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اور لارڈ مکالے جیسا وحید عصر اور بے بدل منشی اردو کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گیا۔ یہ اشارہ ہے دفعہ 508 کی تشریح الف کی جانب جس میں لفط دھرنا، قدرے الحاقی تصرف کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ دھرنا دینا کے معنی آپ کومعلوم ہیں جو ہیں۔انہوں نے ماخذ کی پروانہ کرکے ماخوذ سے واسطہ رکھا، اور اسے اپنے مطلب کا بنا لیا۔ چنانچہ عربی یا فارسی لفظوں کی جب اپنے قاعدے کے بموجب جمع بنانے لگے، تو حرف ثانی کی حرکت کو حذف کر دیا۔ محل کی جمع بنی محلوں، حائے حطی کی حرکت غائب، اسی طرح نظر کی جمع بنی نظروں نہ کہ نظَروں۔ اگر انہوں نے فارسی اور عربی یا سنسکرت کے لغات کی اندھی تقلید کی ہوتی تو اردو کو یہ لغاتی تمول ہرگز نصیب نہ ہوتا۔ اب جو کوئی ’’ازا حۃ الاغلاط‘‘ یا ’’تصحیح اللغات‘‘ وغیرہ کا نام لے، تو سمجھ لو کہ وہ اردو کا اہل نہیں۔صفات میں بھی ایسے مرکب وضع کئے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کن الفاظ میں ان کے ذہن رسا اور جدت آفرینی کی توصیف کرے۔ سیتلا منہ داغ اور سیتا ستی کو ملاحظہ فرمایئے۔ اس مرکب توصیفی کو سیتا ستی کے معنوں میں لکھا گیا ہے، ’’ہندی مسلمان عورت۔‘‘ یعنی یہ مرکب مسلمان عورتوں کے استعمال سے خصوصیت رکھتا ہے۔ اس کے معنی ہیں، ’’عفیفہ بیوی زن، جس کے دامن پر نماز جائز ہو۔‘‘ یہ معنی وہ ہیں جو مسلمان مؤلف اس لغت کے سامنے لکھتا ہے۔صفت نسبتی میں انہوں نے نہایت دلچسپ تصرف سے کام لیا۔ تاریخ فیروز شاہی آپ نے دیکھی ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کا مصنف ضیا برنی ہے۔ جغرافیہ کے بڑے بڑے ماہر سے پوچھئے کہ برن کہاں واقع ہے۔ وہ سویٹزر لینڈ کے نقشے میں تو ایک برن آپ کو بتا دے گا لیکن ہندوستان کے نقشے میں یہ مقام معدوم رہے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ بلند شہر کا قدیم نام برن ہے۔ انہوں نے قصبہ کا نام تو بدل دیا مگر صفت نسبتی کو برنی رکھا، بلند شہری نہ بنایا۔ اس کا دوسرا رخ بھی دلچسپ ہے۔ آگرہ کا نام اکبر آباد نہ پڑ سکا۔ اکبر کے عہد کے قبل سے سب آج تک آگرہ ہی کہتے ہیں لیکن شاہ نظیر اکبر آبادی کہلاتے ہیں۔ دہلی شاہجہاں آباد تو بن گئی لیکن اس کے شاعر دہلوی ہی رہے۔ بات یہ ہے کہ ان کا تصرف مصلحت اور حس مشترک پر مبنی تھا، ضد اور استبداد پر نہیں اور ان کے نظریے معقولیت پر مدون تھے۔ذرا غور فرمایئے کہ ان بزرگوں کی ذہنیت کتنی دقیقہ رس اور نکتہ پرور ہوگی، اور ان کے تصرف لسانی کی قوت عمل کتنی زبر دست ہوگی جو بخشنا، خریدنا اور آزمانا، بدلنا، فرمانا وغیرہ مصدر ترکہ میں چھوڑ گئے۔ مختصر یہ کہ اردو کے متقدمین نے اس کی تدوین و تنظیم میں جو مسالا ان کے سامنے تھا، اس سے بہترین کام لیا جس کی بدولت زبان کو مستقل اور قائم بالذات حیثیت حاصل ہو گئی۔ تصرف لسانی کے معنی صرف اپنانا نہیں بلکہ اپنا سا بنا لینا ہیں۔ آپ نے دیکھا عربی لفظ ’’بدل‘‘ کو لے کر بدلنا مصدر بنایا۔ اب اس کی، فعل کے ہر زمانے اور صیغے میں گردان ہو سکتی ہے۔ یہیں تک نہیں حاصل مصدر بنا ’’بدلی‘‘ تابع مہمل بھی اس کے ساتھ ملایا گیا۔ جیسے ا دل بدل۔ مختصر یہ کہ اس کی وہی حیثیت ہو گئی جو آنا، جانا، کھانا، پینا کی تھی۔انگریزی میں یہ عمل اب تک جاری ہے، اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ وہ زبان برابر ترقی کرتی رہی ہے۔ لوٹ انہوں نے ہمارے ہاں سے لیا، اور ایساا پنا سا بنا لیا کہ فعل کی گردان میں ٹولو اور ٹولوٹ بالکل یکساں ہیں۔ چارلس ڈکنس جیسے مستند مصنف نے یہ لفظ استعمال کیا ہے اور پھر ہمارے لٹیرا کی جگہ لوٹر بنا لیا۔ حال ہی میں ایک لفظ انگریزی میں داخل ہوا ہے۔ ہڑتال سے انہوں نے ہڑتالسٹ بنا یا، اور جمع کے لئے ’س‘ پر ایزاد کیا جیسا کہ انگریزی گریمر کا قاعدہ 2 ہے۔ میرا مطلب تصرف سے یہ ہے۔پچاس برس کا مشاہدہ اور تجربہ جو منظر ہمارے سامنے پیش کرتاہے، حسرت ناک اور مایوس کرنے والا ہے۔ یہ دیکھ کر جی ڈوبتا ہے کہ اس نصف صدی کی مدت میں ہم نے اردو کی لغات میں کوئی ایزادی نہیں کی۔ یعنی اس بارے میں اردو کا ترکیبی فعل گویا معطل ہو گیا۔ چند اصطلاحیں جیسے ’’برقانا‘‘ وغیرہ ضرور وضع کی گئیں اور ’’بھروٹ‘‘ جیسے چند دیسی لفظ اردو میں ضرور لے لئے گئے ہیں لیکن یہ سب علم و فن کی اصطلاحیں ہیں۔ اور پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان کے وضع یا اختیار کرنے والوں کو کیا کہا گیا۔غیر زبانوں سے جو لفظ بلاضرورت بجنسہ اردو میں آئے، ان میں سے اکثر نا خواندہ مہمان کی طرح اردو کی سبھا میں اوپر ے معلوم ہو رہے ہیں، اس ضمن میں آگے چل کر کچھ عرض کیا جائے گا۔سیاسیات کی مانند لسانیات میں بھی سخت جان ہوا کرتے ہیں۔ یہ سخت جان ان سخت جانوں سے مختلف ہیں جن کی سوانح عمریاں غزل کے اشعار میں بکھانی جاتی ہیں۔ ان کا استبداد اور سخت گیری زبان کی ترقی اور توسیع کے مزاحم اور جانی دشمن ثابت ہوتے ہیں۔ ہر زبان ان حضرت سے تنگ ہے۔ کہاں اللہ بخشے، وہ بزرگ جن کا قول تھا برقع چونکہ ہماری زبان میں الف سے نکلتا ہے، اس لئے بجائے عین کے الف سے لکھنا چاہئے اور کہاں یہ حضرت جو تصرف لسانی کے نام سے بھویں تانتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اردو میں خود رفتہ نہیں بلکہ از خود رفتہ استعمال کرنا لازم ہے۔ جواب دیا گیا کہ ’سرگزشت‘ کی سر گذشت تو ذرا بیان فرمایئے۔یہ اسی قسم کی موشگافی اور ماخذ پرستی ہے۔ جیسی انگریزی میں Reliable کے متعلق انگلستان کے ادبی سخت جانوں کی طرف سے ظہور میں آئ تھی، ذرا سنیئے بڑے لطف کی بحث ہے۔ اس لفظ کے معنی ہیں اعتبار کے قابل۔ اعتراض ہوا کہ ایک لفظ ٹرسٹ وردی Trustworthy پہلے موجود ہے تو پھر زبان کے نازک اندام پر اور بوجھ کیوں لادا جاتاہے۔ اس کا شافی جواب ملا یعنی ثابت کر دیا کہ پرانا لفظ نئے لفظ کے نفس معنی کا حامل نہیں۔ تو ارشاد ہوا، چونکہ یہ نیا مرکب لفظ Rely سے بنا ہے اور اس فعل کے بعد التزاماً حرف جارOn آیا کرتا ہے۔ اس واسطے اس مرکب کو Relionable کہو۔ سب جانتے ہیں جو حشر اس غلط استدلال کا ہوا۔ لفظ ریا لیبل اس وقت انگریزی کے معتبر کلمات میں سے ہے۔ارشاد ہوتا ہے کہ لفظ رہائش غلط ہے۔ اردو مصدر رہنا سے فارسی طریق پر حاصل مصدر بنا لیا۔ معترض کی ناواقفیت پر ہنسی آتی ہے کہ اس نے اس لفظ کی تاریخ تحقیق کرنے کی زحمت نہ اٹھا کر اس کے اختراع کی تہمت ایک صوبہ کے سر تھوپ دی، جو اس بارے میں قطعاً معصوم ہے۔ جاننا چاہئے کہ سید انشا نے بالکل معمولی طور پر ناچ، اکٹر وغیرہ کے ساتھ اس لفظ کو لکھا ہے۔ اس بے نظیر ادیب اور اہل نظر نقاد کے قلم سے پورب، پچھم، اتر، دکھن کوئی نہ بچا، اور مغل پورہ کی زبان اور لہجے پر تو بے پناہ حملے ہوئے ہیں۔ اگر یہ لفظ مغل پورہ کی جدت آفرینی یا بد مذاقی کا مولود ہوتا تو سید انشا اس کو ایک سادھا رن لفظ کی طرح ہرگز نہ لکھ جاتے۔ 3زبان کی قوت اشتقاق و اختراع اور سلیقہ ترکیب کا ذکر آگے آ چکا ہے۔ یہاں چند مرکبات پیش کئے جاتے ہیں، جو اردو کی قوت حیات اور فعل ترکیبی کی صلاحیت کا بین ثبوت ہیں، ملاحظہ ہو،منہ پھٹ، ہتھ چھٹ، ہری چگ، نین موتنی، چمکو کھاؤ، لٹاؤ بڑ بڑیا، کچ پیندیا، نکھٹو، تلوریا، گلچلا، کھاؤ، گھپ، لنگوٹیا یار، ہنس مکھ، گلچھرے، کٹھ پتلی، چم چچڑ، تل چاولی، گنگا جمنی، رونی شکل، ماما پختیاں، تھڑدلا، گرہ کٹ، جیب کترا، کلے باز، شور بے چٹ، منہ زور، جوشیلا، دل لگی، کمر کس، اگن بوٹ، قبول صورت، ڈل مل یقین، ایماندار، درشنی جوان، بیکل، ٹکڑ گدا، گھنچکر وغیرہ وغیرہ۔آپ نے دیکھا کہ تصرف و اختراع کے ہاتھ سے عربی، فارسی اور نیز سنسکرت کوئی زبان نہ بچی۔ ان الفاظ میں جو مرکبات ہیں، ان میں اسم اور فعل، اسم اور صفت، اسم اور اسم ہر قسم کے کلموں کو آپ شیر و شکر پائیں گے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب زبان کا بلوغ درجہ کمال پر ہو۔ بقول خواجہ آتش مغفور،یہ باتیں ہیں جب کی کہ آتش جواں تھا۔میں کہتا ہوں کہ اردو کو آریہ زبان ہونے کے باوجود نہ سنسکرت کا حلقہ بگوش بنانا چاہئے، نہ فارسی یا عربی کا دست نگر، علمی اصطلاحوں کا معاملہ دوسرا ہے جس کو بحث بنانے کا موقع نہیں۔اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ شعر کی زبان نثر کی زبان سے اور بول چال کی زبان علمی تصنیف کی زبان سے ممیز ہوا کرتی ہے۔ یہ کون کہتا ہے کہ فلسفہ مابعد طبعیات یا اسلوب تحلیلی کے نظریے پر باغ و بہار یا فسانہ آزاد کی زبان میں کتابیں تصنیف ہونی چاہئیں۔ علمی زبان روز مرہ سے اسی طرح مابہ الامتیاز بنی ہے جس طرح ڈریس سوٹ، رائڈنگ سوٹ سے کوئی صحیح حواس رکھنے والا شخص کھانے کی پوشاک پہن کر سواری کو نہیں نکلتا لیکن وہ سواری کی پوشاک پہن کر شام کی پوشاک کی ہولی بھی نہیں مناتا۔ یہ تمثیل میں آگے نہیں لے جاؤں گا۔عہد حاضر کے ایک جید لسان یعنی عالم لسانیات کا قول 4 ہے کہ تحریری، علمی زبان کی ہستی کو یخ کی اس پپڑی سے تشبیہ دے سکتے ہیں جو دریا کی سطح پر بن گئی ہو۔ یخ نے اپنے اجزائے ترکیبی دریا سے لئے، حقیقیت میں یہ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ دریا کا پانی ہے، پھر بھی اسے دریا نہیں کہہ سکتے۔ ایک بچہ اسے دیکھ کر سمجھتا ہے کہ د ریا نیست و نابود ہو گیا لیکن یہ صرف دھوکہ ہے۔ یخ کی پٹری کے نیچے پانی برابر بہہ رہا ہے یہ تمثیل جو فاضل وینڈر یاس نے دی، فرانسیسی زبان پر صادق آتی ہوگی، اردو پر عائد نہیں ہو سکتی۔ یہاں علمی تحریری زبان کو اس دریا سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی، جس کی سطح جم کر یخ کی پپڑی بن گئی ہو۔ یخ کے کڑاڑے یا بر فانی چٹان کو دریا نہیں کہہ سکتے حالانکہ تینوں کے وجود کی بنا پانی ہی پانی ہے۔ممکن ہے کسی ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ اگلے زمانہ میں علمی یا تحریری زبان کیا تھی یا تھی ہی نہیں؟ میں عرض کروں گا کہ تھی، نمونہ حاضر ہے۔تار برقی کا سلسلہ صوبہ شمال مغربی یا زیادہ صحت کے ساتھ کہیئے، صوبہ آگرہ میں نیا نیا تھا۔ آج کل آپ تلغراف کو ترجیح دیں گے، اس زمانہ میں اسے ڈاک بجلی کا نام دیا گیا تھا۔ علمی زبا ن میں تار مخبر کہر بائی کہتے تھے۔ فروری 1856 کا ذکر ہے، آگرہ میں ایک جلسہ ہوا جس میں ایک ہزار سے زیادہ رئیس اور شرفا جمع ہوئے۔ قاضی صفدر علی نے تار مخبر کہربائی کا تجربہ دکھاتے ہوئے ایک تقریر کی، جس کو اردو میں سائنٹیفک موضوع پر شاید اولین تقریر کہنا درست ہوگا۔ اس کا جستہ جستہ خلاصہ جسے آج کل کی زبان میں ملخص کہنا چاہئے، پیش کیا جاتا ہے۔ غالباً دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔’’صاحبو! علم دو قسم کے ہیں، اول وہ جن کو انسان بدون مشاہدہ اور استعمال اجسام کے حاصل کر سکتا ہے، اس کو ریاضی کہتے ہیں۔ دوسرے وہ جس کا جاننا بغیر تجربہ کے نہیں ہو سکتا کیونکہ فرض کرو ایک شخص پیدا ہوا اور اس نے کچھ بھی گرم سرد زمانہ کا نہیں دیکھا۔ ایک اندھیرے کمرے میں رہتا ہے، تو وہ عقل سے ریاضی کے اصول دریافت کر سکتا ہے کہ ایک اور ایک دو ہوتے ہیں، مگر چونکہ اس نے اجساموں کے تجربے نہیں کئے۔ اس واسطے وہ نہیں جان سکتا کہ اگر پتھر کو پانی میں ڈالیں، تو وہ گھلے گا یا نہیں۔ وہ علم جو تجربہ پر منحصر ہیں ان کی قسموں میں سے ایک قسلم علم طبعی ہے۔ یہ علم بہت سے علموں کے واسطے حاوی ہے۔ چنانچہ منجملہ علوم طبعی کے ایک علم کہربائی ہے۔کہربا ایک سیال لطیف ہے جو جہاں کے تمام اجساموں میں بہ مقادیر مختلفہ پھیلی ہوئی ہے اس کے چند اوصاف مخصوصہ ہیں جن سے حوادث عجیبیہ اور فوائد غریبہ سر زد ہوتے ہیں۔ یہ علم بذاتہ دو قسموں پر منقسم ہے اول وہ کہربا جو رگڑنے سے پیدا ہوتی ہے، دویم وہ کہربا جو چھونے سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘آپ نے تین چوتھائی صدی پہلے کی علمی زبان ملاحظہ فرمائی۔ یہ تو ہوئی بہتے دریاکی سطح پر برف کی پپڑی۔ آج کل کی زبان جیسی کچھ ہے، آپ جانتے ہیں۔ اس کو کہنا چاہئے انجماد خالص، صاحب زبان خواہ کسی نوع کے موضوع پر لکھے، وہ زبان کو یخ کے کڑاڑے اور برف کی چٹان کے نیچے دفن نہیں کرے گا۔ترجموں کی زبان بھی اسی بھول بھلیاں میں چپر غٹو ہے۔ ایک بات اسی ضمن میں عرض کروں گا، ڈاکٹر نذیر احمد مرحوم نے تعزیرات ہند کا ترجمہ کیا اور اسی شان کا کیا جس شان کی اصل کتاب تھی۔ اس ترجمہ میں جہاں آپ کو استحصال بالجبر اور تخویف مجرمانہ جیسے اصطلاحی فقرے ملیں گے جو مرحوم کی دقت نظر اور اختراعی کمال کا ثبوت ہیں۔ ٹھیٹھ اردو کے مثالیں بھی ملیں گی جن کی اصطلاحی اہمیت قانون میں کسی لاطینی اصطلاح سے کم وقعی نہیں مثلاً ’’لے بھاگنا‘‘ اور ’’بھگا لے جانا‘‘ وغیرہ۔ یہ وہی مرکب مصادر یا افعال کی طلسم کاری ہے جس کی طرف پہلے اشارہ ہو چکا ہے۔وہ اردو کیا جب تک قاموس اور برہان، امر کوش اور شبد کلپدرم داہنے بائیں تشریف فرما نہ ہوں، ایک تحریر کا معنی مدعا سمجھ ہی میں نہ آ سکے۔ یہ تو ہوئی ایک بات اور میں ان مہربانوں کی خاطر سے کہہ دوں گا، اس کا مضائقہ ہی کیا ہے لیکن زبان کی بہبودی ان کی یا کسی کی خوشنودی پر فوقیت چاہتی ہے۔ میں اس موقع پر لسانیات کا نہایت وقیع اور مہتم بالشان اصول موضوعہ آپ کی توجہ کے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جب کسی زبان کو دوسری زبانوں سے الفاظ یا مرکبات لینے کا لپکا پڑ جاتا ہے اور وہ انہیں بلا چوں و چرا یعنی اپنے طور پر تصرف کے بغیر استعمال کی عادی ہو جاتی ہے تو اس کی تصریفی قوت اختراعی قابلیت اور اشتقاقی اہلیت زائل ہو جاتی ہے۔متاخرین اور ان سے بڑھ کر ہمارے معاصرین نے یہ نہ سوچا کہ وہ جو اور زبانوں کی لغات اندھا دھند لئے جاتے ہیں اس کا نتیجہ ان کی زبان کے حق میں کیا ہوگا۔ میں پھر کہتا ہوں کہ پچھلے پچاس برس میں اردو میں ایک لفظ، ایک مرکب یا ایک محاورہ بھی وضع یا اختراع نہیں ہوا۔ بزرگوں کی کمائی کہاں تک ساتھ دے گی، زبان کا تصریفی اور اشتقاقی عمل معطل ہو رہا ہے۔ یہی حالت رہی تو یاد رہے کہ یہ تعطل سقوط کی صورت پکڑ جائے گا اور اب سے دور ہماری زبان آئے دن بھیک کا کاسہ ہاتھ میں لئے اور زبانوں کے دروازے پر الکھ جگاتی پھرا کرے گی۔ مانگے تانگے کی خوش باشی اور قرض پر دھوم دھام کو تمول نہیں کہتے۔اگلے موقع پر آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا تھا کہ متکلم یا منشی کی او ر سامع یا مخاطب کی با ہم ذہنی قربت ہی روح فصاحت ہے۔ آج میں یہ گذارش کروں گا کہ یہ ذہنی قربت لسانی تربیت کی محتاج ہے۔ محض ابتدائی مدارس کو رہنے دیجئے اور مدارس ثانوی کے نصاب تعلیمی پر نظر ڈالئے تو آپ پر ظاہر ہوگا کہ ان مدارس کے لئے جو اردو نصاب مدون ہوتے ہیں، سائنٹفک نقطہ نظر پر راجع نہیں ہوتے ہیں۔ فوراً یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہاں میرا روئے سخن دکن کے مدارس ثانوی کے اردو نصاب سے ہرگز نہیں۔ میرا تجربہ ہندوستان کے دوسرے حصوں تک محدود ہے لیکن یہ چونکہ اصولی امر ہے اس لئے اس کا تذکرہ ضروری سمجھا گیا۔ میں امید کرتا ہوں آپ میرے ہم خیال ہوں گے۔ اس بارے میں کہ جو بچے مدارس ثانوی میں داخل ہوتے ہیں ان کو فصیح و سلیس اردو میں تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔اس میں بھی آپ کا اتفاق ہوگا کہ فصیح اور نکھار اردو میں اثر اور ترنم بھرا ہوا ہے۔ اصطلاح میں جسے روز مرہ کہتے ہیں، اس پر زور دینا مفید نہ ہوگا کیونکہ اس کے ساتھ صوبیت اور مقامیت تشریف لے آتے ہیں۔ بچے کے ذہن میں شروع سے ہی اختلاف اور تناقص کے جراثیم ڈال دینا اس کی آئندہ ادبی زندگی کے لئے سم قاتل کا حکم رکھتا ہے۔ ان کو ایسی زبان میں تربیت کرنا چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسیوں، اپنے شہر یا قصبے والوں کو اور ان لوگوں کو جو اردو سمجھتے اور جانتے ہیں، اپنا مطلب سمجھا سکیں۔ ابتدائی تعلیم میں نوخیز طلبا کی ذہنی تربیت کا خیال رکھنا نہایت اہم ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ ابتدائی عمر میں ابداع و اختراع کی اپج کمال کی ہوتی ہے۔ جنہوں نے بچوں کے کھیل کود اور ورزش کے مقاموں میں چند لمحے توجہ سے گزارے ہیں وہ تسلیم کریں گے کہ بچے آپس کی پھبتیوں، جوش و خروش کے مکالموں اور فی البدیہ تک بندیوں میں ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں اور ایسی ایسی ترکیبیں گڑھ لیتے ہیں کہ آپ حیران رہ جاتے ہیں اور نہایت محظوظ ہوتے ہیں۔ اختراع کی یہ قوت اپنے وقت پر ہنسی کھیل سے منتقل ہو کر علم و فضل اور تحقیق و تفحص کے میدان میں مستعمل ہونی چاہئے، نہ کہ وہاں کی وہیں رہ جائے۔ اس لئے لازم ہے کہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم ایسی اردو میں ہو کہ طلبا کے تخیل اور قوت اختراع کی یہ مزاحم نہ ٹھیرے۔ یہ تربیت جبھی ہو سکتی ہے کہ اردو الفاظ کے ٹھیٹھ معنی اور وضعی مصرف کو ان کے ذہن نشیں کر دیا جائے اور جملہ کی ترکیب و انشا کا اصول ان کے لوح دل پر نقش ہو جائے۔ اسے کہنا چاہئے زبان متداولہ کی تعلیم۔ اس لسانی استعداد کے حاصل ہونے کے بعد ادب یعنی لٹریچر کی تعلیم کی نوبت آتی ہے۔زبان سے متعلق بہت سے امور ایسے ہیں جنہیں متوسطین نے متنازعہ فیہ یا تصفیہ طلب چھوڑا، وہ ابھی تک لٹک رہے ہیں۔ ایک تذکیر وتانیث ہی کو لیجئے۔ میرا مطلب اس بارے میں اس اختلاف سے نہیں جو ایک مقام یا زمرے کو دوسرے مقام یا زمرے سے ہے۔ اس جگہ غیر ذی روح اسموں کی تذکیر و تانیث کا سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔ میں کہ کہنے کو ہوں کہ ہماری بے بسی اور بے بضاعتی کتنی شرم کے قابل ہے کہ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ جنسیت کے بارے میں کلمہ ربط کس کا متبع ہو۔ مبتدا کا یا خبر کا؟ ذوق اور غالب نے اس تنقیح کو جہاں جہاں چھوڑا تھا وہیں موجود ہے۔ وہ دونوں استاد جب اس کے تصفیہ میں قاصر رہے تو ہم میر فیصلی کہاں کے! ہمارا یہ انداز معلوم ہوتا ہے۔ ذوق مرحوم کا قول ہے،دریائے غم سے میرے گذرنے کے واسطےتیغ خمیدہ یا رکی لوہے کا پل ہوااس شعر میں کلمہ ربط جنسیت میں خبر کا متبع ہے۔ مرزا غالب کا ارشاد ہے،باغ میں مجھ کو نہ لیجا ورنہ میرے حال پر ہر گل تر تو ایک چشم خوں فشاں ہو جائے گایہاں کلمہ ربط مبتدا کا تابع رکھا گیا ہے۔ اس ایک ادنیٰ مثال سے آپ قیاس کر سکتے ہیں کہ زبان کی یہ گڑبڑ کتنی منحوس ہے اور یہ آج تک شامت اعمال کی طرح ہمارے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ ا س کے نتائج و عواقب کی شدت ثبوت کی محتاج نہیں۔ آپ دیکھتے ہیں، یہ وہ بات نہیں جو فرض کیجئے دہلی اور لکھنؤ یا پنجاب اور پٹنہ کے درمیان ایک امر تنقیح کا حکم رکھتی ہو۔ بلکہ یہ وہ امر ہے جو زبان کی یگانگی اور ہم آہنگی کا مدعی ہے۔ جب تک ایسے نقص ہم میں موجود ہیں اور جب تک یہ نا مراد تشخص ذاتی سادھا رن اور کار آمد انفرادیت کا رنگ پکڑ کر اپنے تئیں اجتماعیت میں جذب اور محو نہیں کر دیتا ہماری زبان کا بس اللہ والی ہے۔انگلستان تو اب انگریزی زبان کے بارے میں ’’امریکنزم، اور یانکی ازم یعنی امریکیت کو بھول گیا جس طرح پہلے سکاٹرزم یعنی سکاٹیت کو بھول گیا تھا لیکن ہم اب تک وہی بے وقت کی راگنی الاپے جاتے ہیں۔ہم کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اردو کے واحد مالک نہیں بلکہ امین ہیں، وہ ایک ودیعت، ایک امانت ہے جو حفاظت اور ترقی کے لئے ہمیں سونپی گئی۔ وہ ایک جدی جائداد ہے جس کی ملکیت ہمیں پر ختم ہونے والی نہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ماضی سے سبق لے کر اس کی موجودہ حالت کا صحیح موازنہ کریں اور اسے ایسا بنا جائیں کہ ہمارے بعد آنے والے ہم کو دعائے مغفرت سے یاد کریں۔ یاد رہے کہ ہم ماضی اورمستقبل کے درمیان ایک کڑی ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ذاتی پسند اور چاؤ چونپ کو اجتماعی مفاد پر قربان کر دیں۔ ہمارا مطمح نظر مستقبل اور آئندہ ضروریات ہوں نہ کہ ذاتی تشخص اور خود پسندی۔
حاشیے
(1) میں نے اس حصہ ملک کو جو دریائے گنگا جمنا کے بیچ واقع ہے، دو آبہ گنجم نام دیا ہے۔
(2) دیکھو ٹائمز آف انڈیا ہفتہ وار مطبوعہ25 جنوری 1931ء صفحہ 19
(3) رسالہ صبح امید، لکھنؤ بابت دسمبر1919ء ص3، 13 اور دریائے لطافت ص113۔
(4) Venders, J. Language A-Linguistic Introduction to History , Paris University , p. 275
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |