Author:برجموہن دتاتریہ کیفی
برجموہن دتاتریہ کیفی (1866 - 1955) |
اردو شاعر، مصنف |
تصانیف
editغزل
edit- میرے رونے پر ہنسی اچھی نہیں
- اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے
- باعث کوئی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
- کوئی دل لگی دل لگانا نہیں ہے
- کس سے ٹھنڈک ہے کہ یہ سب ہیں جلانے والے
- دل کو جب حاصل صفائی ہو گئی
- لطف ہو حشر میں کچھ بات بنائے نہ بنے
- یا الٰہی مجھ کو یہ کیا ہو گیا
- حسن ازل کا جلوہ ہماری نظر میں ہے
- ہو کے عاشق جان مرنے سے چرائے کس لئے
- قسمت برے کسی کے نہ اس طرح لائے دن
- ڈھونڈھنے سے یوں تو اس دنیا میں کیا ملتا نہیں
- عشاق میں نام ہو چکا ہے
- لب ساغر سے سن لو زاہدو تقریر مے میخانہ
- دنیا میں بقا نہیں کسی کو
- بتائیں کیا عمل عشق حقیقی کا کہاں تک ہے
- اک طلسم عجب نما ہوں میں
- صورت حال اب تو وہ نقش خیالی ہو گیا
- کوئی نہ دیکھا کہ واپس آیا خدا کے گھر ایک بار جا کر
- پردہ دار ہستی تھی ذات کے سمندر میں
- بادل امڈے ہیں دھواں دھار گھٹا چھائی ہے
- کیوں کر چبھے نہ آنکھ میں گل خار کی طرح
- بتائیں کیا تجھ کو چشم پر نم ہوا ہے کیا خوں آرزو کا
- آہ وہ شعلہ ہے جو جی کو بجھا کے اٹھے
- میں نے ان سے جو کہا دھیان مرا کچھ بھی نہیں
- ساقیا کس کو ہوس ہے کہ پیو اور پلاؤ
- خدا بھی طرف دار نکلا تمہارا
- پانی سیانے دیتے ہیں کیا پھونک پھونک کر
- حال دل کہنے کو کہتے ہو تو کب تم مجھ کو
- الفت کے امتحاں میں اغیار فیل نکلے
- یوں سسکتا مجھے تم چھوڑ نہ جاؤ آؤ
- راحت کہاں نصیب تھی جو اب کہیں نہیں
- کبھی ہے آج اور کل کبھی ہے بھلا یہ عہد وصال کیا ہے
- ہے یاد یار سے اک آگ مشتعل دل میں
- سارے عشاق سے ہم اچھے ہیں
- مقصد حاصل نہیں ہو یا ہو
- عشق ہی عشق ہو عاشق ہو نہ معشوق جہاں
- قیس کا تجھ میں جنوں جذبۂ منصور نہیں
- غم دنیا نہیں پھر کون سا غم ہے ہم کو
- پانی پانی ہو گیا جوش ابر دریا بار کا
- وصل کی ان بتوں سے آس نہیں
- فدا اللہ کی خلقت پہ جس کا جسم و جاں ہوگا
- ہے عکس آئینہ دل میں کسی بلقیس ثانی کا
- بن سنور کر ہو جو وہ جلوہ نما کوٹھے پر
- دل کھو گیا ہمارا کسی سے ملا کے ہاتھ
- زندگی کا کس لیے ماتم رہے
- جس کو خبر نہیں اسے جوش و خروش ہے
مضمون
edit
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |