ازبسکہ جی ہے تجھ بن بیزار زندگی سے
ازبسکہ جی ہے تجھ بن بیزار زندگی سے
بہتر ہے مجھ کو مرنا اے یار زندگی سے
مر جاؤں میں تو رونا میرا تمام ہووے
شاکی ہیں میری چشم خوں بار زندگی سے
اس شاہد نہاں کا کشتہ ہوں میں کہ جس نے
کھینچی ہے درمیاں میں دیوار زندگی سے
مرتے تو چھوٹ جاتے رنج و محن سے یاں کے
مانند خضر ہم ہیں ناچار زندگی سے
یاں کی اذیتوں سے ازبسکہ آگہی تھی
کرتے تھے ہم عدم میں انکار زندگی سے
جیتے اگر نہ ہم تو کیوں ذلتیں اٹھاتے
کھائی ہے دل پہ ہم نے تلوار زندگی سے
سچ ہے اٹھائے کب تک ہر اک کی بے ادائی
آتی ہے مصحفیؔ کو اب عار زندگی سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |