از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو
از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو
بے اختیار تجھ پر آتا ہے پیار مجھ کو
صیاد کا برا ہو جس کے تغافلوں نے
کنج قفس میں رکھا فصل بہار مجھ کو
جاؤں کدھر کو یارو مانند صید خرگہ
مژگاں نے کر رکھا ہے اس کی شکار مجھ کو
اس رفتگی پہ مجھ سے کرتا ہے تو تغافل
ڈانٹے ہے تس پہ الٹا پھر بار بار مجھ کو
میرا قصور کیا ہے صانع کو چاہئے تھا
مقدار حسن دیتا صبر و قرار مجھ کو
فتنہ ہے یا پری ہے جادو ہے یا بلا ہے
آنکھوں سے یہ کیا ہے کس کی دو چار مجھ کو
اے مصحفیؔ تصور اس کا جو سامنے ہے
آتا نہیں شب غم یک دم قرار مجھ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |