اسیر عشق مرض ہیں تو کیا دوا کرتے

اسیر عشق مرض ہیں تو کیا دوا کرتے
by ثاقب لکھنوی

اسیر عشق مرض ہیں تو کیا دوا کرتے
جو انتہا کو پہنچتے تو ابتدا کرتے

اگر زمانے میں اپنے کبھی وفا کرتے
دہان زخم تڑپنے پہ کیوں ہنسا کرتے

مریض لذت فریاد کہہ نہیں سکتے
جو نالے کام نہ آتے تو چپ رہا کرتے

ہم ان سے مل کے بھی فرقت کا حال کہہ نہ سکے
مزہ وصال کا کھوتے اگر گلہ کرتے

مذاق درد سے نا واقفی نہیں اچھی
کبھی کبھی تو مری داستاں سنا کرتے

شب فراق گوارا نہ تھی مگر دیکھی
اب اور خاطر مہماں زیادہ کیا کرتے

در قفس نہ کھلا قدر صبر کر صیاد
تڑپتے ہم تو پہاڑوں میں راستا کرتے

اسے جلا کے اسے آگ دی برا نہ کیا
جگر جو رکھتے تھے آخر وہ دل کو کیا کرتے

زبان والوں سے سن سن کے ہے یقیں ثاقبؔ
کہ بولتے تو صنم بھی خدا خدا کرتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse